شیخ ابوالحسن خرقانیؒ ایک بہت بڑے ولی کامل گزرے ہیں۔ ان کی بیوی بڑی تند مزاج اور بد اخلاق تھیں۔ شیخ کی زندگی کو اپنی بدخلقیوں سے تلخ کر رکھا تھا۔
ایک بار ایک مرید حضرت شیخ کے زیارت کے لئے حاضر ہوئے، شیخ جنگل تشریف لے جاچکے تھے۔ مرید نے دروازے پر آواز دی۔ شیخ صاحبؒ کی اہلیہ نے کہا کہ کیوں آئے ہو؟ مرید نے بصد ادب و احترام شیخ کا نام لیا اور عرض کیا کہ حضرت کی زیارت کی غرض کے لئے حاضر ہوا ہوں۔
بیوی نے شیخ کا نام سنتے ہی سینکڑوں شکایتیں شیخ کی بیان کر کے کہا کہ احمق ہوئے ہو، کیوں عمر ضائع کرنے کے لئے اتنا طویل سفر کیا، مجھ سے زیادہ شیخ کی حقیقت سے کون آگاہ ہو سکتا ہے۔
مرید بہت آزردہ خاطر ہوا اور زار و قطار روتا ہوا جنگل کی طرف چلا گیا۔ دیکھتا ہے کہ وہ محبوب حق ولی کامل، شیر پر بیٹھے ہوئے لکڑی کا ایک گھٹا بھی شیر پر لادے ہوئے اور (زندہ) سانپ کا کوڑا ہاتھ میں لئے ہوئے تشریف لارہے ہیں۔
حضرت شیخ خرقانیؒ نے اپنے مرید کی افسردگی و پریشانی سے سمجھ لیا کہ یہ بے چارہ گھر سے تنگ کیا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا کچھ غم نہ کرو، حق تعالیٰ نے بیوی ہی کی بدمزاجی پر صبر و تحمل سے مجھے یہ درجہ عطا فرمایا ہے۔ شیخ نے فرمایا:
گر نہ صبرم می کشیدے بار زن کے کشیدے شیر نر بیگار من
ترجمہ: اگر بیوی کا بار میرا صبر نہ کھینچتا تو یہ شیر نر کب میری بیگار اٹھاتا۔ (معرفت الٰہیہ ص 211)
ایک عجیب حکایت:
مولانا رومیؒ نے یہ حکایت نقل فرمائی ہے کہ:
ایک دفعہ چینیوں اور رومیوں میں اس بات پر مقابلہ ٹھن گیا کہ ان میں سے کس کو فن نقاشی میں برتری حاصل ہے۔ بادشاہ وقت نے کہا کہ میں تم دونوں کا امتحان لوں گا اور پھر فیصلہ کروں گا کہ کون زیادہ صناع ہے اور کس کا دعویٰ سچا ہے۔ چینیوں نے کہا بہت بہتر، ہم خوب محنت کریں گے۔ رومیوں نے کہا ہم بھی اپنا کمال دکھانے میں اپنی جان لڑوا دیں گے۔
دونوں فریقوں نے باہمی گفتگو کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک دوسرے کے آمنے سامنے دو دیواریں سنبھال لیں، درمیان میں پردہ حائل کر دیں اور دیواروں میں اپنی اپنی نقاشی کا کمال دکھائیں۔
چینیوں نے بادشاہ سے سینکڑوں قسم کے رنگ طلب کئے اور وہ اس نے مہیا کردیئے، لیکن رومیوں نے بادشاہ سے کوئی چیز طلب نہ کی اور اپنی دیوار کو صیقل (صفائی) کرنے میں مشغول ہوگئے۔ یہاں تک وہ دیوار آئینہ بن گئی۔ دوسری جانب چینیوں نے مختلف اقسام کے رنگوں کی آمیزش سے ایسے ایسے دلفریب اور جاذب نظر نقش و نگار اور بیل بوٹے بنائے کہ ان کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی تھی۔
مقابلہ کے دن بادشاہ پہلے چینیوں کی طرف گیا اور ان کے بنائے ہوئے نقش و نگار دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ پھر وہ رومیوں کی طرف گیا، انہوں نے اپنے کام پر سے پردہ اٹھایا تو چینیوں کی دیوار کے تمام نقش و نگار ان کی صیقل کی ہوئی دیوار (جو اس دیوار کے بالکل سامنے تھی) میں منعکس ہوگئے اور اس نے ایسا دل آویز حسین منظر پیش کیا کہ آنکھیں اس کو دیکھ کر سیر نہ ہوتی تھیں۔ بادشاہ وقت نے فوراً فیصلہ دے دیا کہ رومی چینیوں سے بازی لے گئے ہیں۔
اس واقعہ سے مولانا رومیؒ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اے انسان! رومیوں کی طرح اپنے دل کو ذکر الٰہی سے صاف کر۔ فرماتے ہیں کہ رومیوں کی مثال ان باخدا صوفیائے کرام کی سی ہے جو عالم اور ہنر مند تو نہیں، لیکن انہوںنے اپنے سینوں کو طمع، حرص و لالچ، بخل اور حسد و کینہ کے زنگ سے پاک و صاف کرلیا ہے۔ یہاں تک کہ آئینہ کی سی صفائی ان کے دل کا وصف بن گئی ہے، جس میں جمال الٰہی منعکس ہوتا ہے۔
(حکایات رومی ص 52 تا 53)