خلاصہ تفسیر
(اور دلائل عقلیہ سے بعث یعنی مر کر زندہ ہونے کا امکان ثابت ہونے کے بعد قرآن سے جو اس کا وقوع ثابت ہے اور تم اس قرآن کو نہیں مانتے) سو میں قسم کھاتا ہوں ستاروں کے چھپنے کی اور اگر تم غور کرو تو یہ ایک بڑی قسم ہے (اور قسم اس بات کی کھاتا ہوں) کہ یہ (قرآن جو پیغمبرؐ پر نازل ہوتا ہے بوجہ وحی الٰہی ہونے کے) ایک مکرم قرآن ہے، جو ایک محفوظ کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں (پہلے سے) درج ہے (اور وہ لوح محفوظ ایسا ہے) کہ بجز اس کو پاک فرشتوں کے (کہ گناہوں سے بالکلیہ پاک ہیں) کوئی (شیطان وغیرہ) ہاتھ نہیں لگانے پاتا (اس کے مضامین پر مطلع ہونا دور کی بات ہے، پس وہاں سے یہاں خاص طور پر آنا فرشتے ہی کے ذریعے سے ہے اور یہی نبوت ہے اور شیاطین اس کو لا ہی نہیں سکتے، کہ احتمال کہانت وغیرہ سے نبوت میں شبہ ہو، اس سے ثابت ہوا کہ) یہ رب العالمین کی طرف سے بھیجا ہوا ہے (جو کہ اشارۃ کریم کا مدلول تھا، یہاں ستاروں کے چھپنے کی قسم اپنے مفہوم و مقصد کے اعتبار سے ایسی ہے جیسے شروع سورۃ النجم میں ہے، جس کا وہاں بیان ہو چکا ہے، جس میں ستاروں کا باعتبار غروب کے حضور اقدسؐ کے موصوف بالنبوۃ اور منار الہدیٰ ہونے کا نظیر ہونا بھی بیان ہوا ہے جو کہ مقصود مقام ہے اور قسمیں جتنی قرآن میں ہیں بوجہ دلالت علی المطلوب کے سب ہی عظیم ہیں، لیکن کہیں کہیں مطلوب کے خاص اہتمام اور اس پر زیادہ متنبہ کرنے کے لئے عظیم ہونے کی تصریح بھی فرما دی ہے، جیسا کہ اس جگہ اور سورۃ الفجر میں۔ حاصل مقام کا اجمالاً وہ ہے جو تفصیلاً اخیر رکوع میں سورۃ الشعراء کے ارشاد ہوا ہے) سو (جب اس کا وحی الٰہی ہونا ثابت ہے تو) کیا تم لوگ اس کلام کو سرسری بات سمجھتے ہو (یعنی اس کو واجب التصدیق نہیں جانتے) اور (اس مداہنت سے بڑھ کر یہ کہ) تکذیب کو اپنی غذا بنا رہے ہو (اور اس لئے توحید و وقوع قیامت کا بھی انکار کرتے ہو) (جاری ہے)