مٹی کے غار موسموں سے بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں

محمد زبیر خان
دوسری اور آخری قسط
حسن ابدال میں مٹی کے غار/ بھوروں میں غریب اور متوسط طبقے کے افراد ہی نہیں، بلکہ امیر خاندان بھی رہتے ہیں۔ یہ غار نہ صرف بیماریوں سے، بلکہ موسموں سے بھی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ سردیوں میں گرم اور گرمیوں میں ٹھنڈے رہتے ہیں۔ امیر لوگوں نے ان غاروں میں ہر قسم کی سہولیات کا بندوبست کر رکھا ہے۔ غاروں میں رہائش پذیر خاندان گھروں کو گرم اور سرد رکھنے کے اضافی اخراجات سے محفوظ رہتے ہیں۔ مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ غار زلزلوں، طوفان اور بارشوں میں بھی محفوظ رہے ہیں اور کبھی لینڈ سلائیڈنگ کا شکار بھی نہیں ہوئے۔ دور دراز علاقوں کے بہت سے متمول خاندان سخت سردی اور شدید گرمی کا موسم ان غاروں میں گزارنے کے لئے آتے ہیں۔ بالخصوص رمضان المبارک میں ایسی فیملیز کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ حسن ابدال کے علاقے میں کم از کم پچاس کارے گر مٹی کے غار بنانے اور ان کی مرمت کا کام کرتے ہیں۔ حسن ابدال کے ماڈل کو مد نظر رکھ کر ملک میں ایکو ٹورازم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے سبز پیر اور نکو کے علاقے میں پپو شاہ، اصغر اور نور شاہ کے غاروں کا دورہ کیا۔ پپو شاہ علاقے کی معتبر شخصیت ہیں اور کاروبار سے منسلک ہیں۔ ان کا سبز پیر میں دو منزلہ مکان ہے اور مکان کے ساتھ ہی وسیع رقبے پر ان کا ایک مٹی کا ٹیلہ ہے، جس میں انہوں نے غار/ بھورا بنا رکھا ہے۔ باہر سے دیکھنے میں وہ معمولی سا غار نظر آ رہا تھا۔ لیکن جب اندر داخل ہوئے تو وہ مکمل رہائش گاہ تھی۔ اس میں انہوں نے چار کمرے بنا رکھے تھے اور ہر کمرے میں ان کی ضرورت کے مطابق ایک یا دو چارپائیاں تھیں۔ ساتھ ہی الماریاں اور صندوق وغیرہ موجود تھے۔ فرش پر کارپٹ پچھا ہوا تھا۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے نکو اور سبز پیر کے علاقے میں اصغر اور نور شاہ کے غاروںکا بھی معائنہ کیا۔ یہ دونوں افراد کم آمدن والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اصغر اپنے خاندان کے ہمراہ باجوڑ ایجنسی سے محنت مزدوری کیلئے اس علاقے میں منتقل ہوا تھا۔ جبکہ نور شاہ مقامی ہیں۔ ان کے غار پپو شاہ کے غار سے تھوڑے مختلف تھے۔ پپو شاہ کی ملکیت میں وسیع و عریض ٹیلہ تھا، جس میں انہوں نے باہر کی طرف ایک دروازہ نکال کر اندر ہی اندر کمرے بنا رکھے تھے۔ جبکہ اصغر اور نور شاہ کے غاروں میں تین، تین کمرے تھے اور ان تینوں کمروں کے باہر ہی دروازے تھے۔ انہوں نے صحن بھی چھوڑ رکھے تھے، جن میں انہوں نے مویشیوں کے باڑے بنا رکھے تھے۔ صحن میں ہی ہینڈ پمپ، کچن اور باتھ روم تھا۔ تاہم ان کے غار بھی صاف ستھرے تھے اور ان میں ضرورت کا سامان موجود تھا۔ ان غاروں میں گرمی یا سردی کا احساس نہیں ہوا، بلکہ اندر کا موسم معتدل تھا۔
پپو شاہ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ چند سال پہلے تک علاقے میں ان غاروں کی اہمیت کو نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر جب سے لوگوں کو ان کی افادیت کا پتا لگا ہے تو مٹی کے ٹیلوں کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے ٹیلے فروخت کر دیئے تھے، اب افسوس کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’میں نے کئی سال پہلے اپنے پکے مکان کے قریب یہ غار بنوایا تھا۔ میرے بچے اسی غار ہی میں سوتے ہیں۔ سخت گرمیوں کے موسم میں میرے دور دراز علاقوں میں رہنے والے رشتہ دار ان غاروں میں کچھ دن گزار کر فرحت حاصل کرتے ہیں۔ جبکہ رمضان میں تو ہمارے ہاں بے انتہا مہمان ہوتے ہیں‘‘۔ انہوں نے بتایا کہ علاقے کے متمول لوگ بھی غاروں میں رہتے ہیں۔ ان میں ایسے مقامی لوگ بھی شامل ہیں، جو دوسرے شہروں میں کاروبار اور ملازمت کیلئے مقیم ہیں۔ لیکن سخت گرمیوں اور رمضان میں وہ ان علاقوں میں آجاتے ہیں اور غاروں میں قیام کرتے ہیں۔ نور شاہ کا کہنا تھا کہ یہ مٹی کا ٹیلہ ان کی ملکیت میں تھا، جس میں انہوں نے غار بنالیا۔ ان کا علاقے میں کوئی پکا مکان نہیں ہے۔ اصغر نے بتایا کہ وہ ایک مقامی خان کے کھیتوں میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور اسی نے یہ غار ان کو رہائش کیلئے دے رکھا ہے۔ نور شاہ اور اصغر کا کہنا تھا کہ انہیں غار میں رہائش کے دوران کسی قسم کی کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ بہت سے اخراجات جو دوسرے لوگوں کو کرنے پڑتے ہیں، ہمیں نہیں کرنے پڑتے۔ ہمیں بجلی اور گیس کا بل بھی نہیں دینا پڑتا۔ کیونکہ ہمارے کمروں میں کوئی ہیٹر اور پنکھا نہیں ہے۔ روشنی کیلئے سولر پینل لگا رکھے ہیں۔
حسن ابدال کے علاقے میں غار/ بھورے بنانے والے کم از کم 50 کاری گر ہیں، جو صرف یہی کام کرتے ہیں۔ ایک کاریگر گل محمد نے بتایا کہ پہلے تو مستری اور مزدور ہی غار بناتے تھے اور اس کیلئے صرف بیلچہ استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب مشنیری استعمال کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے غار بنانے والے مستریوں اور مزدوروں کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پانچ سال بعد غاروں کو مرمت کی ضرورت پڑتی ہے۔ کچھ لوگ تو ہر سال ہی ان کی مرمت کراتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران غار بنانے کے ٹرینڈ میں اضافہ ہوا ہے۔
ماحولیات کے حوالے سے کام کرنے والے ممتاز وکیل ظفر اقبال ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ ملک کے پہاڑی سیاحتی علاقوں میں ہر سال سیاحوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے مزید تعمیرات کی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے ان علاقوں میں ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ وہاں حسن ابدال کی طرز کے غار بنائے جا سکتے ہیں۔ یہ ممکن ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں اور سیاحتی مقامات پر حسن ابدال کی طرح مٹی کے ٹیلے نہ ہوں۔ مگر ان غاروں کو ماڈل کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ اس طرح ایکو ٹورازم کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت حسن ابدال میں مٹی کے ٹیلوں اور غاروں کو محفوظ کرنے کیلئے اقدامات کرے اور مقامی لوگوں کی مدد سے علاقے میں سیاحت کو فروغ دے، جس سے وہاں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔
انوائرمنٹ پروٹیکشن ایجنسی ضلع اٹک کے ڈپٹی ڈائریکٹر علی عمران نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہیں یہ علم نہیں ہے کہ حسن ابدال کے غاروں پر کوئی تحقیق ہوئی ہے یا نہیں۔ لیکن ایک بات تو طے ہے کہ ہر قدرتی طریقہ کار انتہائی فائدہ مند ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حسن ابدال میں ان غاروں کی افادیت سامنے آرہی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ان غاروں کو محفوظ رکھنے کیلئے اقدامات کرے۔

Comments (0)
Add Comment