کرتار پور بارڈر کھلنے سے انتہاپسند ہندو چراغ پا

دلبیر سنگھ واہلا
کرتار پور بارڈر کھولے جانے کی خبر بھارتی انتہا پسند ہندوئوں پر بجلی بن کر گری ہے۔ وی ایچ پی (وشوا ہندو پریشد) اور آر ایس ایس (راشٹریہ سیوک سنگھ) سمیت دیگر ہندو انتہاپسند تنظیموں کے رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے خالصتان تحریک کو نئی طاقت مل سکتی ہے۔ انہوں نے یہ واویلا بھی کیا ہے کہ اب علیحدگی پسند سکھ نوجوان، نہ صرف یاترا کی آڑ میں پاکستان جا کر دہشت گردی کی شارٹ ٹرم ٹریننگ حاصل کرسکتے ہیں، بلکہ بھارت میں دہشت گردی کی کارروائیوں کے بعد فوری طور پر کرتار پور کوریڈور کے ذریعے سرحد پار فرار ہو سکتے ہیں۔ دوسری جانب کینیڈا، آسٹریلیا، امریکا اور برطانیہ سمیت کئی یورپی ممالک اور بھارت میں موجود سکھ کمیونٹی نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ تاہم گرو نانک کی سمادھی کی یاترا کیلئے کرتار پور کوریڈور کھولے جانے کو ہندو انتہا پسند تنظیموں اور رہنمائوں نے خالصتان تحریک دوبارہ فعال کرنے کا اقدام قرار دیا ہے۔ انہوں نے مودی سرکار سے مطالبہ کیاہے کہ کرتار پور بارڈر کو سکھوں کیلئے ویزا فری کوریڈور نہ بنایا جائے ورنہ یہ اقدام بھارت کے ٹکڑے کردے گا اور سکھوں کے الگ وطن کا دیرینہ خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے گا۔ ادھر جاگرن پوسٹ نے بھارتی وزارت داخلہ کے حوالے سے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی انٹیلی جنس کے سائے عالمی سکھ تنظیموں نے بھارت سے آنے والے سکھوں کا استقبال خالصتان کی حمایت میں نعروں اور بینرز سے کیا۔ رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ پاکستانی حکام نے بھارتی ہائی کمیشن افسر کو کرتار پور گوردوارے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ بھارتی صحافی ارجن گوسوامی کے مطابق کرتار پور بارڈر کھلنے سے بھارتی انٹیلی جنس کو بھی شدید تحفظات ہیں۔ ارجن کا دعویٰ ہے کہ خالصتان کے حامی جنگجو سکھ، ٹریننگ اور لاجسٹک سپورٹ کیلئے نصف گھنٹے کے اندر اندر کرتارپور صاحب گردوارے جانے کے بہانے پاکستان پہنچ سکتے ہیں۔ جبکہ سرحد پار ان پر نظر رکھنا بھی آسان نہیں ہوگا کہ کرتار پور گردوارے میں ہمہ وقت پوری دنیا سے آنے والے سکھ یاتریوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے صف اول کے رہنما سبرامنیم سوامی نے انٹرویو میں کرتار پور کوریڈور کھولے جانے پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ مودی حکومت کی یہ اسٹریٹیجک غلطی ہے کہ وہ پاکستان کی چال میں پھنس گئی۔ کرتار پور کوریڈور کے ذریعے خالصتان کے قیام کی خواہش رکھنے والی سکھوں کی نئی نسل کے دل میں اپنا دیش حاصل کرنے کی جوت جگائی جائے گی۔ بھارتی جریدے اکنامک ٹائمز نے لکھا ہے کہ کرتار پور بارڈر کھولنا پاکستان کی ایک خاص حکمت عملی ہے جس کا راستہ سیدھا خالصتان کو جاتا ہے۔ جریدے کا دعویٰ ہے کہ انڈین انٹیلی جنس نے کرتار پور کوریڈور پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ دکن ہیرالڈ کا نے اپنی رپورٹ میں دعویٰ ہے کہ خالصتان کے قیام کی تحریک کیلئے جد و جہد کرنے والی بھارتی و عالمی سکھ تنظیموں نے 2020ء کو آزادی کا سال قرار دیا ہے۔ سکھ تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے کرتار پور کوریڈور کھول کر سکھ قوم پر احسان کیا ہے۔ بھارتی تجزیہ نگاروں کے مطابق پاکستانی آرمی چیف نے بڑی مہارت کے ساتھ کرتار پور کارڈ کھیلا ہے۔ اس اقدام نے سکھ قوم کے جذبات اور کو استعمال کرتے ہوئے بھارتی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس کا ایک اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کرتار پور بارڈر کے افتتاح کی دعوت قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ کیونکہ کرتار پور کوریڈور کا افتتاح، سکھوں اور پاکستان کی جیت اور بھارتی انتہا پسند ہندوئوں کی واضح شکست ہے۔ دوسری جانب بھارتی پنجاب کے وزیر اعلیٰ امریندر سنگھ نے بھی گیدڑ بھپکی دی ہے کہ پاکستان کرتار پور بارڈر کھول تو رہا ہے، لیکن یاد رکھے کہ بھارت کے پاس ایک بڑی فوج ہے۔ اسی طرح بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے متعدد رہنمائوں نے بھی کرتار پور کوریڈور کی شدید مخالفت کی ہے۔ بی جے پی راجستھان کے صدر مدن لال سینی نے مودی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ کرتار پور کوریڈور مت کھولے۔ جبکہ سکھوں کے آن لائن جریدے ’’سکھ سیاست‘‘ نے لکھا ہے کہ پوری دنیا میں بسنے والے سکھ، کرتار پور کوریڈور کھلنے سے انتہائی خوش ہیں اور ہر سکھ کی خواہش ہے کہ وہ اگلے برس گرونانک کی 550 ویں جنم دن کی تقریبات اور جشن میں شرکت کیلئے کرتار پور گوردوارے پہنچے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں ننکانہ صاحب، پنجہ صاحب، کرتار پور صاحب، ڈیرہ صاحب اور دیگر گوردوارے ہیں جہاں پوری دنیا سے سکھ یاتری آتے ہیں۔

Comments (0)
Add Comment