کراچی میں غیر ملکی تاجروں کو ٹھگنے والا گروہ سرگرم

عمران خان
کراچی میں جعل سازوں کا ایک ایسا گروپ سرگرم ہوگیا ہے، جس کے کارندے غیر ملکی شہریوں کو چونا لگا رہے ہیں۔ ملزمان کی جانب سے ایسے غیر ملکی تاجروں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو پاکستان میں تیار ہونے والی مصنوعات خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ غیر ملکی تاجروں سے تمام معاملات طے کرنے کے بعد ایڈوانس رقم امریکی ڈالرز میں وصول کرنے کے بعد یہ کارندے منگوایا گیا سامان بھجوانے کے بجائے غائب ہو جاتے ہیں۔ اس گروہ کے حوالے سے کراچی کے ایک مڈل مین کی درخواست پر ایف آئی اے نے تحقیقات شروع کردی ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول تحقیقات میں ملزمان کا سراغ لگانے کو اس لئے بھی ترجیح دی جا رہی ہے کہ اس طرح کی وارداتیں عالمی سطح پر ملکی بدنامی کا سبب بننے کے علاوہ ایمانداری سے ایکسپور ٹ کا کام کرنے والے مقامی تاجروں کے لئے بھی نقصان کا باعث بن رہی ہیں۔
ایف آئی اے سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق اب تک اس گروہ کے کارندوں کے حوالے سے جو انفارمیشن ملی ہے، اس سے پتا چلا ہے کہ ملزمان چین، ویت نام، موریشس اور تھائی لینڈ کے تاجروں سے فراڈ کر چکے ہیں۔ ایف آئی اے کو موصول ہونے والی تحریری کمپلین میں پرائم ٹریڈر نامی کمپنی کی جانب سے آگاہ کیا گیا ہے کہ ان کے توسط سے مختلف ممالک کے ایسے تاجروں نے کراچی میں رابطے کئے تھے، جو پاکستان سے ’’چکن فیڈ‘‘ یعنی پولٹری کی خوراک آمد کرنے خواہش مند تھے۔ جس پر مذکورہ کمپنی کی جانب سے مڈل مین کر کردار ادارے کرتے ہوئے ان غیر ملکی کمپنیوں کے رابطے کراچی میں زیڈ ایس ٹریڈر اور بعض دیگر ایسی کمپنیوں سے کروائے گئے، جنہوں نے ’’بزنس پروفائل‘‘ میں خود کو پولٹری فیڈ کے بڑے سپلائر اور ایکسپورٹر کی حیثیت سے متعارف کرایا ہوا تھا۔ ان معاملات کے بعد غیر ملکی کمپنیوں اور مقامی ایکسپورٹرز کے درمیان معمول کے مطابق معاہدے ہوئے، جس کے مطابق مقامی سپلائرز نے غیر ملکی کمپنیوں کو پولٹری فیڈ سے بھرے ہوئے مطلوبہ مقدار میں کنٹینرز بھجوانے تھے۔ اس مد میں غیر ملکی کمپنیوں نے ایڈوانس کے طور پر نصف رقم ادا کردی تھی۔ تاہم ایڈونس کی رقم وصول کرنے کے بعد یہ مقامی سپلائر کمپنی اور اس کے نمائندے منظر عام سے غائب ہوگئے، جس کی وجہ سے جہاں غیر ملکی تاجروں کو لاکھوں ڈالرز کا نقصان ہوا، وہیں مڈل مین کا کردار ادا کرنے والے کمپنی کو بھی عالمی مارکیٹ میں سبکی اٹھانی پڑی۔
ایف آئی اے ذرائع کے مطابق جعلسازوں نے فی کمپنی 40 ہزار ڈالرز سے زائد کی رقوم ایڈوانس میں وصول کیں۔ جبکہ ایک غیر ملکی کمپنی سے ایک لاکھ ڈالرز میں پولٹری فیڈ کے 4 کنٹینرز بھجوانے کا سودا کیا گیا تھا۔ ذرائع کے بقول جس وقت جعل سازوں نے رقم وصول کر کے سودے کئے تھے، اس وقت انہوں نے اپنے دفاتر گلشن اقبال کے مختلف علاقوں میں ظاہر کئے، جہاں پر صابر حسین اور آل رضا زیدی نامی افراد ان کمپنیوں کے نمائندوں کی حیثیت سے معاملات طے کر رہے تھے۔
ایف آئی اے ڈائریکٹر سندھ آفس میں موصول ہونے والی کمپلین پر ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل میں تحقیقات اسسٹنٹ ڈائریکٹر لبنیٰ ٹوانہ کے سپرد کی گئی ہے، اور جعلسازوں کی گرفتاری کے لئے کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملزمان کا سراغ لگانے کیلئے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کی گئی ہیں، تاکہ آن لائن آئی ڈیز کے ذریعے بیرون ملک رابطے کرنے والوں کے آن لائن اکائونٹس کی تفصیلات بھی حاصل کی جاسکیں۔ ذرائع نے بتایا کہ ملزمان نے اب تک جتنے بھی فراڈ کئے ہیں، اس کے بعد یہ دفاتر تبدیل کر لیتے ہیں اور نئے ٹھکانوں سے نئی ای میل آئی ڈیز اور ویب پیجز بنا کر غیر ملکی کمپنیوں کو ٹھگنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ۔
ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ملزمان کے اس گروپ نے کئی مختلف ناموں سے کمپنیاں رجسٹرڈ کروا رکھی ہیں۔ تاہم تحقیقات میں جب ریکارڈ منگوا کر چیک کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ملزمان نے چالاکی سے کام لیتے ہوئے کمپنیاں ایسے شہریوں کے ناموں پر رجسٹرڈ کروائی تھیں، جو یا تو کراچی میں موجود نہیں یا پھر ان کی دستاویزات جعل سازی سے استعمال کی گئی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس جعل سازی کے لئے ماضی میں رجسٹرڈ کروائی گئی بعض ایسی کمپنیوں کو بھی استعمال کیا گیا جو طویل عرصے سے غیر فعال تھیں یا پھر ان کے لائسنس کسی بھی وجہ سے منسوخ تھے۔ تحقیقات کے مطابق جب غیر ملکی تاجر اور مڈل مین ان کمپنیوں کے حوالے سے اپنے طور پر متعلقہ اداروں سے تحقیقات کراتے ہیں تو انہیں یہ کمپنیاں رجسٹرڈ معلوم ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ دھوکے کا شکار ہوکر سودے کر لیتے ہیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول ان جلسازوں نے پولٹری فیڈ کے علاوہ بھی دیگر مصنوعات کی ایکسپورٹ کے نام پر بھی فراڈ کر رکھے ہیں۔ اس کے لئے ملزمان خاص طور پر ایسی مصنوعات کے سپلائر اور ایکسپورٹر بن کر ویب پیجز اور سوشل میڈیا آئی ڈیز بناتے ہیں جس کی حالیہ عرصے میں ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہو۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول تحقیقات میں گلشن اقبال اور گلستان جوہر میں ملزمان کے زیر استعمال رہنے والے بعض دفاتر سے معلومات حاصل کی گئی ہیں، جس میں پتا چلا ہے کہ ملزمان دفاتر لینے اور انٹرنیٹ وغیرہ کی سہولت حاصل کرنے کے لئے بھی جعلی دستاویزات اور معلومات استعمال کرتے رہے۔

Comments (0)
Add Comment