محدثین کے حیران کن واقعات

حق تعالیٰ نے امام بخاریؒ کو خصوصی قوتِ حافظہ عطا فرمائی تھی۔ چنانچہ وہ ایک بات سننے کے بعد ہمیشہ یاد رکھتے تھے۔ آپؒ کے استاذ امام محمد بن بشارؒ فرماتے تھے کہ اس وقت دنیا میں خصوصی حافظہ رکھنے والے چار شخص ہیں: امام بخاریؒ، امام مسلمؒ، امام ابوزرعہ رازیؒ اور امام عبداللہ بن عبدالرحمن سمرقندیؒ۔ شارح صحیح بخاری علامہ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ ان چاروں میں امام بخاریؒ کو خاص فضیلت اور ترجیح حاصل تھی۔
علامہ ابن حجر عسقلانیؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاریؒ کے اساتذہ کی تعداد کا کوئی اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ خود امام بخاریؒ کا اپنا بیان ہے کہ ’’میں نے اسی ہزار حضرات سے روایت کی ہے، جو سب بلند پایہ اصحابِ حدیث میں شمار ہوتے تھے‘‘۔آپؒ کے تلامذہ کی کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ علامہ فِرَبریؒ فرماتے ہیں کہ جب میں امام بخاریؒ کی شہرت سن کر آپؒ کی شاگردی کا شرف حاصل کرنے آپ کی خدمت میں پہنچا تو اس وقت تک تقریباً نوے ہزار آدمی آپ کے شاگرد ہو چکے تھے۔ نامور شاگردوں میں امام ترمذیؒ اور علامہ دارمیؒ بھی شامل ہیں۔
امام بخاریؒ کی تصانیف میں آٹھ کتابیں زیادہ مشہور ہیں: الادب المفرد، التاریخ الصغیر۔ الاوسط، التاریخ الکبیر، الضعفاء الصغیر، قرۃ العینین برفع الیدین فی الصلاۃ، خلق افعال العباد، القرائۃ خلف الامام اور سب سے مایہ ناز کتاب صحیح بخاری شریف ہے۔
صحیح بخاری لکھنے کی وجہ:
امام بخاریؒ نے حجاز کے تیسرے سفر میں مسجد نبویؐ سے متصل ایک رات خواب میں دیکھا کہ میرے ہاتھ میں ایک بہت ہی خوبصورت پنکھا ہے اور میں اس کو نہایت اطمینان سے جھل رہا ہوں۔ صبح کو نماز سے فارغ ہوکر امام بخاریؒ نے علمائے کرام سے اپنے خواب کی تعبیر دریافت فرمائی۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ صحیح حدیثوں کو ضعیف و موضوع حدیثوں سے علیحدہ کریں گے۔ اس تعبیر نے امام بخاریؒ کے دل میں صحیح احادیث پر مشتمل ایک کتاب کی تالیف کا احساس پیدا کیا۔ اس کے علاوہ اس ارادہ کو مزید تقویت اس بات سے پہنچی کہ آپؒ کے استاذ شیخ اسحاق بن راہویہؒ نے ایک مرتبہ آپ سے فرمایا: کیا ہی اچھا ہوتا کہ تم ایسی کتاب تالیف کرتے جو صحیح احادیث کی جامع ہوتی۔
خواب کی تعبیر اور استاذ کے ارشاد کے بعد امام بخاریؒ صحیح بخاری لکھنے میں ہمہ تن مشغول ہوگئے۔ صحیح بخاری تحریر کیے جانے تک حدیث کی تقریباً تمام ہی کتابوں میں صحیح، حسن اور ضعیف تمام قسم کی احادیث جمع کی جاتی تھیں۔ نیز صحیح بخاری تحریر کیے جانے تک علم حدیث کی بہ ظاہر تدوین بھی نہیں ہوئی تھی، جس کی وجہ سے اصول بھی عام طور پر سامنے نہیں آئے تھے، جو صحیح اور غیر صحیح میں امتیاز پیدا کرتے۔ صحیح بخاری کی تصنیف کے بعد بھی حدیث کی اکثر کتابیں صحیح، حسن اور ضعیف پر مشتمل ہیں۔
صحیح بخاری کے لکھنے میں وقت:
امام بخاریؒ نے سب سے پہلے تقریباً چھ لاکھ احادیث کے مسودات ترتیب دیئے۔ اس میں کئی سال لگ گئے۔ اس سے فارغ ہوکر آپؒ نے احادیث کی جانچ شروع کی اور اس اہم ذخیرے سے ایک ایک گوہر چن کر صحیح بخاری میں جمع کرنا شروع کردیا۔ آپؒ خود فرماتے ہیں کہ ہر حدیث کو صحیح بخاری میں لکھنے سے قبل غسل فرما کر دو رکعت نفل ادا کرتا ہوں۔ آپؒ کو جب کسی حدیث کی سند میں اطمینان نہیں ہوتا تو آپؒ مسجد حرام یا مسجد نبویؐ میں بہ نیت استخارہ دو رکعت نماز پڑھتے اور پھر قلبی اطمینان کے بعد ہی اس حدیث کو اپنی کتاب میں تحریر فرماتے۔ غرض انہوں نے سولہ سال دن و رات جدوجہد کرکے یہ عظیم کتاب تحریر فرمائی، جسے قرآن کریم کے بعد سب سے بڑا مقام حاصل ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment