بلا شبہ قرآن مجید بابرکت کتاب ہے۔ رب تعالیٰ کا فرمان ہے: جو کتاب ہم نے نازل کی ہے یہ بابرکت ہے، اس میں برکت ڈالی گئی ہے۔ اس کتاب کی پیروی کرنا اور ڈرتے رہنا، جب یہ کام کرتے رہو گے تو خدا کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی۔ آج گھروں، بازاروں، منڈیوں میں پریشانیاں ہیں کہ معلوم نہیں ہمارے روزگار کا کیا بنے گا۔ حق تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میری طرف سے جو مبارک کتاب تمہاری طرف آئی ہے، جس نے اس کی پیروی کی، اس کے ماضی کے غم اور مستقبل کا خوف رفع ہو جائے گا۔ یعنی بدبختی اس کا مقدر نہیں بنے گی اور گمراہی تمہارے پاس نہیں آئے گی۔
رسول اقدسؐ ارشاد فرماتے ہیں: جو لوگ خدا کے گھروں میں بیٹھتے ہیں، اپنے غموں کو دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، خوشیاں تلاش کرتے ہیں۔ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، ایک دوسرے کو وعظ و نصیحت کرتے ہیں، تو حق تعالیٰ ان پر سکون نازل کرتا ہے، نتیجتاً رحمت آنا شروع ہو جاتی ہیں اور فرشتے ان کو چاروں طرف سے سایہ رحمت میں گھیر لیتے ہیں۔
اسی طرح سورہ طہ میں فرمان الٰہی ہے: جس نے قرآن سے منہ موڑ لیا، ہم اس کی معیشت تنگ کر دیں گے۔
رسول اکرمؐ ارشاد فرماتے ہیں کہ جس پر کوئی بڑی پریشانی آ جائے وہ یہ دعا پڑھے:
ترجمہ: ’’خدایا! میں تیرا بندہ ہوں، تیرے بندے کا بیٹا ہوں، میری پیشانی تیرے ہاتھ میں ہے، میں تیرے ناموں کے ساتھ تجھے پکارتا ہوں، جو تو نے اپنی کتاب میں نازل کیے، جو تو نے اپنے بندوں کو سکھلا دیے یا جن کا تو نے کسی کو علم نہیں دیا۔ الٰہی! قرآن کو میرے دل کی بہار بنا دے اور میرے سینے کا نور بنا دے‘‘۔
رسول اقدسؐ نے فرمایا: جس نے یہ دعا پڑھ لی، اس کی ہر قسم کی پریشانیاں ختم کر دی جائیں گی۔ بلا شبہ قرآن مجید سے جس نے بھی منہ موڑا، اس کی ہر چیز میں بے برکتی ہو جاتی ہے۔
برکت کا حصول دعائوں کے ساتھ کیسے حاصل کی جاسکتی ہے، اب ایک نظر اس پہلو پر بھی ڈالتے ہیں۔ رسول اکرمؐ صحابہ کرامؓ پر خوش ہوتے تو انہیں دعا دیتے۔ مائیں اپنے بچوں کو لے کر آتیں، آپؐ دعا دیتے۔ آج افسوس ناک طور پر ہم دعائوں سے دور ہوگئے۔ جو دعا رد نہیں ہوا کرتی، ان میں سے والدین کی دعائیں بھی ہیں، جو اپنی اولاد کے لیے کی جائیں۔ آپ کے مسلمان بھائی کو کوئی چیز اچھی لگے تو دعا دیں، مگر آج ہم حسد کرتے ہیں۔ حالاں کہ آپ کسی کے لیے دعا مانگیں گے تو فرشتے آپ کے لیے بھی دعا کریں گے۔ آج پریشانی کی اصل وجہ ہی یہ ہے کہ ہم نے رسول اکرمؐ کی تعلیمات سے منہ موڑ لیا۔ آپؐ جب بھی کوئی نیا پھل دیکھتے تو ہاتھ میں پکڑ کر دعا کرتے کہ خدایا! اسے ہمارے لیے باعث برکت کر دے اور جو بھی بچہ قریب ہوتا اس کو پہلے کھلاتے۔ مگر آج کروڑوں میں سیکڑوں افراد بھی اس پر عمل نہیں کرتے۔ رسول اقدسؐ نے اپنے صحابی عُروہؓ کو ایک دینار دے کر بھیجا کہ جائو میرے لیے بکری خرید کے لائو اور جب وہ آئے تو بکری کے ساتھ دینار بھی واپس لے آئے۔ نبی اکرمؐ کے پوچھنے پر بتایا کہ میں نے ایک دینار کی دو بکریاں خریدی تھیں اور پھر ایک دینار کی ایک بکری بیچ دی اور یہ ایک بکری اور ایک دینار آپ کے پاس حاضر ہے۔ جس پر رسول اکرمؐ خوش ہوئے اور ان کے لیے برکت کی دعا کی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اسلام میں منافع کی کوئی حد نہیں ہے۔(تحریر: مفتی عبد اللطیف)
٭٭٭٭٭