حسن اخلاق نے دل بدل دیا

میرا کلمہ شہادت پڑھنا ایک ایسی دھماکہ خیز خبر تھی کہ ایک لمحے کے لیے ہر کوئی ساکت ہوگیا۔ جو جہاں تھا وہیں رُک کر میری طرف متوجہ ہوا اور حیران کن نظروں سے مجھے دیکھنے لگا۔ چند لمحات کے بعد میری سب سہیلیاں میری طرف بھاگیں، مجھ سے چمٹ گئیں، مجھے چومنے لگیں۔ سب کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ سب مجھے مبارکباد دے رہی تھیں۔ جذبات کا ایسا طوفان تھا کہ میرے لیے بھی خود پر قابو رکھنا ممکن نہ رہا۔ میں نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا۔ میں خدا تعالیٰ سے اپنی سابقہ زندگی کے بارے میں مغفرت طلب کر رہی تھی، اپنی آئندہ زندگی کے لیے ثابت قدمی کا سوال کر رہی تھی۔
چند لمحات میں یہ خبر سارے ادارے میں پھیل گئی۔ مسلمانوں کے ساتھ ساتھ وہاں پر عیسائی ملازمین بھی تھے۔ یہ خبر ان پر بجلی بن کر گری۔ انہوں نے بغیر کسی تاخیر کے یہ خبر میرے خاوند، گھر والوں اور دیگر عزیز و اقارب تک پہنچا دی۔ اب مجھے کسی کی پروا نہیں تھی۔ میں یہاں سے سیدھی متعلقہ محکمے کے دفتر میں گئی اور مسلمان ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا اور سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔ اس کے بعد میں اپنے گھر کی طرف لوٹی۔
گھر پر ایک ہنگامہ برپا تھا۔ میرے اسلام لانے کی خبر ملتے ہی میرے خاوند نے اپنے رشتے داروں کو اکٹھا کر لیا۔ انہوں نے میرے سارے کپڑے جلا دیئے۔ زیورات اور جواہرات پر قبضہ کر لیا۔ سارے گھریلو ساز و سامان کو بھی قبضے میں لے لیا۔ میں اب ان چیزوں سے بلند ہو چکی تھی۔ مجھے سازو سامان اور زیورات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ میرے لیے سب سے زیادہ اذیت ناک بات یہ تھی کہ انہوں نے میرے بچے بھی چھین لیے تھے۔ میں اپنے بچوں کی جدائی میں تڑپ رہی تھی۔ مجھے ایک پل بھی چین نہیں تھا۔
میرے بچوں نے بھی رو رو کر برا حال کر لیا تھا۔ اُن کی ایک ہی ضد تھی کہ ’’ما ما‘‘ کے پاس جانا ہے۔ میرے لیے سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میرا خاوند میرے بچوں کو عیسائی بنا لے۔ مجھے خدشہ تھا کہ وہ انہیں کسی چرچ کی کفالت میں دے دے گا، جہاں مذہبی تعصب کوٹ کوٹ کر بھر دیا جائے گا، پھر وہ میری بات بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ پادری دن رات اُن کی برین واشنگ کریں گے۔ وہ اُن کے دماغ میں والدہ سے نفرت بھرنے کی کوشش کریں گے۔
اب میں سب باتوں کو بھول کر حق تعالیٰ سے ایک ہی التجا کر رہی تھی کہ کسی طرح میرے بچے مجھے مل جائیں۔ جلد ہی حق تعالیٰ نے میری دعا قبول کر لی۔ کئی مسلمانوں نے اس سلسلے میں میری مدد کی۔ میں نے بچوں کی حوالگی کے لیے کیس دائر کر دیا۔ عدالت نے میرے سابقہ شوہر کو طلب کیا اور اُسے پہلے یہ آپشن دیا کہ تمہاری بیوی مسلمان ہو چکی ہے۔ تم عیسائی رہتے ہوئے اُس کے شوہر نہیں رہ سکتے۔ اگر تم اُس کے ساتھ رہناچاہتے ہو تو مسلمان ہو جائو۔ اُس نے انتہائی متکبرانہ انداز سے اسلام قبول کرنے کا آئیڈیا مسترد کر دیا۔
بچے چونکہ ابھی نابالغ تھے اس لیے میرے حوالے کر دیئے گئے۔ میری مشکلات ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ اب شروع ہوا تھا۔ میرے خاوند اور اُس کے خاندان نے میرے خلاف پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ وہ اس حد تک گر جائیں گے۔ انہوں نے مجھ پر بہت سے اخلاقی الزامات بھی لگائے۔ لیکن خدا کا شکر ہے کہ عیسائی کمیونٹی کے علاوہ کوئی اُن کی بات ماننے کے لیے تیار نہیں تھا۔ عیسائی بھی محض تعصب اور حسد کی وجہ سے اس غلیظ پروپیگنڈے میں حصہ لے رہے تھے۔ میرے اپنے خاندان نے بھی مجھ سے ناطہ توڑ لیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ میں ان کے لیے مر چکی ہوں۔ لیکن میں ان مشکلات کو خاطر میں لائے بغیر اسلامی تعلیمات کو سیکھنے اور ذوق شوق سے اُن پر عمل پیرا ہونے میں مگن تھی۔
حق تعالیٰ نے جلد ہی میری دعا کو قبول کر لیا۔ ایک بیوہ خاتون جس کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ مالی طور پر تو وہ غریب تھی، لیکن دل کی بہت امیر تھی۔ اس نے میرے حالات سے متاثر ہو کر پیشکش کی کہ میں اُس کے بیٹے محمد سے شادی کر لوں، ہم سب مل جل کر رہیں گے۔ حق تعالیٰ ہماری گزران کا بھی مناسب بندوبست فرما دے گا۔ اب میں اپنے خاوند محمد اور اُس فیملی کے ساتھ انتہائی مطمئن زندگی گزار رہی ہوں۔ ربتعالیٰ نے ہمیں قناعت کی دولت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اب میری ہر وقت ایک ہی دعا ہے کہ حق تعالیٰ میرے خاندان کو بھی ایمان کی دولت سے نواز دے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment