کتاب ’’نزہۃ المجالس‘‘ کے مصنف حضرت علامہ عبد الرحمن صفوری شافعیؒ کا بیان ہے کہ مجھ سے بعض حنفی علماء نے بیان کیا ہے کہ ایک بار امام ابو حنیفہؒ کے حُساد (حاسد کی جمع یعنی بہت سے حسد کرنے والے) نے چاہا کہ ان کی شہرت کو دھبہ لگائیں اور بدنام کریں۔
اس گھنائونے ارادے سے ایک عورت کو کچھ مال دے دلاکر کہا کہ ابو حنیفہ کو رات کے وقت کسی طریقے سے اپنے گھر بلالو اور پھر لوگوں پر ظاہر کرو کہ انہوں نے میری آبروریزی اور بے عزتی کا ارادہ کیا تھا۔
چنانچہ پچھلی رات کو جب حضرت امام صاحبؒ نماز صبح کے ارادے سے جامع مسجد تشریف لے جا رہے تھے تو وہ عورت اس ناپاک منصوبے کے تحت آپؒ کے سامنے آکھڑی ہوئی اور کہنے لگی کہ میرا خاوند سخت بیمار اور قریب المرگ ہے، وہ چاہتا ہے کہ کچھ وصیت کرے اور مجھے ڈر ہے کہ کہیں وصیت کے پہلے ہی اس کا انتقال نہ ہو جائے۔ مہربانی کرکے ذرا آپ میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ آپؒ اس کے ہمراہ اس کے گھر میں داخل ہوئے۔
اس نے دروازہ بند کر لیا، چلانے اور شور کرنے لگی۔ امام صاحبؒ کے مخالف اور حسد کرنے والے جو اسی تاک اور گھات میں تھے، فوراً آپہنچے اور امام ابو حنیفہؒ اور اس عورت کو گرفتار کرکے خلیفہ کے پاس لے گئے۔
خلیفہ نے حکم دیا کہ طلوع آفتاب تک ان دونوں کو سجن یعنی قید خانے میں رکھو۔ امام صاحبؒ قید خانے میں نماز پڑھنے لگے۔ وہ عورت نادم اور شرمندہ ہوئی اور لوگوں نے کچھ اسے سکھایا پڑھایا تھا، آپ سے صاف صاف بیان کردیا۔
امام صاحبؒ نے اس سے کہا کہ داروغہ جیل و نگران سے جا کر کہو کہ مجھے ایک ضرورت پیش آئی ہے۔ میں جاتی ہوں اور ابھی لوٹ آؤں گی۔ یہ کہہ کر ام حماد یعنی میری اہلیہ کے پاس جاؤ اور فوراً سارا ماجرا بیان کرکے ان سے کہہ دو وہ میرے پاس اسی وقت چلی آئیں اور تو اپنا راستہ لے (یعنی چلی جا)۔
وہ عورت بات سمجھ گئی۔ اس نے ایسا ہی کیا اور حضرت امام صاحبؒ کی اہلیہؒ محترمہ آگئیں۔ (امام صاحب نے ان کو بھی ساری تفصیل بتا دی ہوگی) جب آفتاب نکلا تو خلیفہ نے امام صاحبؒ اور عورت کو طلب کیا اور امام صاحبؒ سے کہا: کیا تمہیں اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت میں رہنا جائز تھا؟
ابو حنیفہؒ نے جواب دیا: فلاں شخص کو میرے پاس بلا دیجئے، یعنی اپنے خسر (بیوی کا باپ) کو بلوا بھیجا۔ جب وہ آئے تو آپؒ نے اپنی زوجہ کا منہ کھول کر انہیں دکھلا دیا اور پوچھا کہ یہ کون ہے؟
انہوں نے اپنی بیٹی کو دیکھ کر پہچان لیا اور فرمانے لگے: یہ میری بیٹی ہے، میں نے امام ابو حنیفہؒ کے ساتھ اس کا نکاح کیا ہوا ہے۔ پس اس طرح حق جل شانہٗ نے امام صاحبؒ کے مقام کو اونچا کیا اور ان کی عزت و آبرو بچا لی۔
حضرت ابو سفیان ثوریؒ تابعی فرماتے ہیں کہ میں نے ابو حنیفہؒ کو کبھی کسی دشمن کی برائی کرتے نہیں سنا۔ علی بن عاصمؒ فرماتے ہیں کہ اگر امام ابو حنیفہؒ کی عقل کا آدھی روئے زمین کے لوگوں کی عقل سے موازنہ کیا جائے تو امام ابو حنیفہؒ کی خدادا عقل غالب رہے گئی۔
(بحوالہ نزہۃ المجالس حصہ اول ص 200)
قارئین گرامی! غور فرمائیں مصنف کتاب مولانا عبد الرحمنؒ شافعی مسلک ہونے کے باوجود خود، امام ابو حنیفہؒ کے زہد و تقویٰ اور عقل و دانش کا اعتراف کس خوبی اور نیک نیتی سے اپنی کتاب میں بیان فرما رہے ہیں، جس کا حوالہ اوپر دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭