سرفروش

عباس ثاقب
میں نے کافی تیز رفتاری سے سفر کیا تھا، لہٰذا عصر سے کچھ پہلے پٹیالے پہنچ گیا۔ راستے میں کوئی قابلِ ذکر واقعہ پیش نہ آیا، البتہ سارے راستے سرد ہوا کے تھپیڑے ضرور سہنے پڑے۔ کیونکہ ڈرائیونگ سائیڈ کا شیشہ ٹوٹنے کی وجہ سے میں جیپ کی ونڈ شیلڈ سامنے کی طرف گرائے رکھنے پر مجبور تھا۔ مجھے پٹیالے پہنچ کر سب سے پہلے ظہیر سے ملاقات کرنا تھی۔ اچھی طرح یاد تھا کہ میں نے اسے عصر سے پہلے موتی باغ محل کے مرکزی پھاٹک پر ملنے کے لیے بلایا ہے۔ مجھے کچھ دیر ہوگئی تھی، لیکن مجھے یقین تھا کہ وہ انتظار کرلے گا۔
راستہ کافی حد تک یاد تھا، لہٰذا تھوڑا سا بھٹکنے کے بعد میں سیدھا موتی باغ محل کے مرکزی پھاٹک کے سامنے جا پہنچا۔ ظہیر کو اندازہ رہا ہوگا کہ میں اسی جیپ میں سوار ہوکر وہاں پہنچوں گا، جس میں اس سے ملاقات کے لیے گیا تھا۔ لہٰذا جیپ پوری طرح رکنے سے پہلے ہی وہ میرے پاس پہنچ گیا اور میں نے گرم جوشی سے اس سے مصافحہ کیا اور اسے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھاکر جیپ ایک بار پھر آگے بڑھادی۔
ظہیر نے رسمی سلام دعا کے فوراً بعد پوچھا۔ ’’خیریت تو ہے جمال بھائی؟ راستے میںکوئی حادثہ ہوا ہے کیا؟‘‘۔
میں نے چونک کر کہا۔ ’’نہیں ظہیر بھائی، ایسی توکوئی بات نہیں۔ تم یہ کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘۔
اس نے کہا۔ ’’جیپ کی ایک طرف کی ونڈ شیلڈ کا شیشہ ایسے ٹوٹا ہے کہ چکنا چور ہوگیا ہے، جبکہ کانچ کے کچھ ٹکڑے ابھی تک فریم میں اٹکے ہوئے ہیں۔ اسی لیے سردی کے باوجود ونڈ شیلڈ سامنے گرانی پڑی ہے۔ یہ سب تو کسی حادثے کی ہی نشانیاں ہیں‘‘۔
میں نے دل ہی دل میں اس کی عقابی نظروں اور ذہانت کو سراہا، لیکن الکھ سنگھ والا قصہ اس کے سامنے دہرانا میرے لیے ممکن نہیں تھا۔ چنانچہ میں نے بات بنائی۔ ’’واہ بھئی، تم نے چند لمحوں میں معاملہ پوری طرح بھانپ لیا۔ بے چاری ونڈ شیلڈ دراصل میرے سردار میزبانوں کے شرارتی بچوں کی کارستانیوں کا نشانہ بنی ہے۔ وہ بمبئی سے کرکٹ کا سامان ساتھ لائے ہیں۔ زور دار شاٹ کھاکر ہارڈ بال سیدھی جیپ پر آگر لگی اور ونڈ شیلڈ کا کام تمام ہوگیا۔ گاؤں میں نیا شیشہ کہاں ملے گا۔ میں ایسے ہی لے آیا‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’یہ شیشہ تو پورے پنجاب میں ملنا مشکل ہے، خیر کیا فرق پڑتا ہے‘‘۔
میں اس دوران میں جیپ کو قلعہ مبارک کے سامنے لے جاکر روک چکا تھا۔ میں ظہیر کو ساتھ لے کر اندر الگ تھلگ چبوترے پر جا بیٹھا۔ میں نے کہا۔ ’’اچھا یہ بتاؤ، تم کب یہاں پہنچے تھے اور کہاں ٹھہرے ہوئے ہو؟‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’میں تو صبح ہی آگیا تھا۔ ریلوے اسٹیشن کے قریب ایک چھوٹا سا مسافر خانہ ہے۔ ایک روپیے روز پر چارپائی ملتی ہے۔ یہاں سے تو دو فرلانگ ہی فاصلہ ہوگا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’میں نے شاید بتایا تھا کہ مانک یہاں شانتی استھان نام کے ایک مسافر خانے میں اپنا گندا دھندا چلارہا ہے۔ میں وہاں ٹھہروں گا۔ شاید آج رات ہی اس سے ملاقات ہوجائے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم بھی وہاں کہیں قریب ہی قیام کرو، تاکہ ضرورت پڑنے پر ہم بلا تاخیر مل سکیں۔ کچھ پتا نہیں ہمیں کب حرکت میں آنا پڑجائے‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ مجھے پلٹ کر اپنے مسافر خانے جانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں۔ ہاں، پیشگی دیئے ہوئے ایک روپیہ کا نقصان ضرور برداشت کرنا پڑے گا‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے قہقہہ لگایا۔ میں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور تسلی بھی دی۔ ’’فکر نہ کرو، میں تمہارے اس بھاری نقصان کی تلافی کردوں گا۔ بس مجھے اتنا بتادو کہ کوئی پستول یا ریوالور ہے تمہارے پاس؟ یہ میں اس لیے پوچھ رہا ہوں کہ میرے پاس ایک ریوالور، ایک پستول اور ایک شاٹ گن موجود ہے‘‘۔
ظہیر نے خوش گوار لہجے میں کہا۔ ’’یعنی اس بار تو اسلحے کا چھوٹا موٹا بھنڈار ساتھ لے کر نکلے ہیں آپ۔ ویسے میرے پاس بھی بھرا ہوا ریوالور اور اضافی گولیاں موجود ہیں۔ مجھے پتا ہے یہ مہم کتنی خوں ریز ہو سکتی ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ہاں، لیکن میری وہ بات تو یاد ہے ناں؟ ہمیں خون خرابے سے ہر ممکن گریز کرنا ہے اور انتہائی مجبوری کے عالم میں ہی ہتھیار استعمال کرنا ہے۔ کشمیری بہنوں کو بحفاظت آزاد کرانا ہماری پہلی ترجیح ہے اور اس کا بہترین طریقہ ان شیطانوں کی مطلوبہ رقم ادا کرنا ہے‘‘۔
ظہیر نے قدرے بدمزہ ہوکر کہا۔ ’’ہاں بھائی، یاد ہے… لیکن اگر انہوں نے لاکھوں کا مطالبہ کر دیا تو کیا ہوگا؟ وہ تین بہنوں کا سودا کریں گے‘‘۔
میں نے اس کی بات میں وزن کا دل ہی دل میں اعتراف کیا، لیکن اپنے لہجے کو حتی الامکان پُر اعتماد رکھتے ہوئے کہا۔ ’’فکر نہ کرو چھوٹے بھائی، میں مال کا بندوبست کرکے آیا ہوں‘‘۔
ظہیر نے سنجیدہ لہجے میں کہا۔ ’’جمال بھائی، مجھے آپ کی بات پر کوئی شک نہیں، لیکن اپنے دل میں موجود اندیشے کے پیش نظر میں نے بھی دس گیارہ ہزار روپے کا بندوبست کیا ہے۔ جو ضرورت پڑنے پر آپ مجھ سے لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یاسر بھائی سے مزید آٹھ دس ہزار روپیہ ادھار بھی مل سکتا ہے‘‘۔
میں نے تعریفی لہجے میں کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی بات بتائی تم نے، لیکن ان شاء اللہ میرے پاس موجود رقم سے ہی کام ہوجائے گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment