جعلی این ٹی این پر کروڑوں کا کاروبار کرنے والی کمپنی پکڑی گئی

عمران خان
بے نامی بینک اکائونٹس کے بعد اب شہریوں کے کوائف پر این ٹی این (نیشنل ٹیکس نمبر) حاصل کرکے کروڑوں روپے کا کاروبار کرنے والی ’’بے نامی کمپنیوں‘‘ کا انکشاف ہوا ہے۔ جعل سازی کے ذریعے ٹیکس چوری اور مالیاتی فراڈ میں ملوث افراد نے ایف بی آر کے حساس شعبے ’’پرال‘‘ سے شہریوں کے نام پر غیر قانونی طریقے سے این ٹی این کھلوائے اور اس پر مختلف کاروباری کمپنیاں رجسٹرڈ کرالیں۔ ان کمپنیوں کے ذریعے کروڑوں، اربوں روپے کا کاروبار کیا جارہا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایف بی آر کے شعبے پرال کی جانب سے شہریوں کی حساس معلومات کا فول پروف سسٹم چلائے جانے اور نیشنل ٹیکس نمبرز میں کوئی جعل سازی نہ ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔ تاہم جعل ساز اب اس سسٹم میں بھی نقب لگاچکے ہیں، جس کیلئے حکومت پاکستان اربوں روپے خرچ کرچکی ہے۔
ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ یہ معاملہ اس وقت کھل کر سامنے آیا، جب ایک شہری کی جانب سے ایف آئی اے کو درخواست موصول ہوئی کہ وہ ضعیف العمر ہے اور ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہا ہے۔ اس کے نام پر جعلی این ٹی این بنوایا گیا اور اس پر’’اسٹار ٹیکنالوجی‘‘ کے نام سے کمپنی قائم کرلی گئی ہے۔ مذکورہ شہری نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس نے نہ تو کبھی این ٹی این بنوایا اور نہ ہی اس کو اسٹار ٹیکنالوجی نامی کمپنی کے بارے میں کوئی علم ہے۔ شہری نے اس کے نام پر جعل سازی کرنے والے ملزمان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس درخواست پر ایف آئی اے زونل ہیڈ کوارٹر سندھ کی جانب سے تحقیقات ایف آئی اے کارپوریٹ کرائم سرکل کے سپرد کی گئیں۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق جب اس معاملے میں تحقیقات کو آگے بڑھایا گیا تو معلوم ہوا کہ شہریوں کے نیشنل ٹیکس نمبرز کا ریکارڈ اور کمپنیوں کی وی بوک آئی ڈیز کا تمام ریکارڈ ایف بی آر کے آٹومیٹک سسٹم میں ہوتا ہے، جس کو پاکستان ریونیو آٹومیشن پرائیویٹ لمیٹڈ کے نام سے چلایا جاتا ہے۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے نے تحقیقات کیلئے متعلقہ ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے ایف بی آر حکام کو لیٹرز لکھے ہیں، تاکہ پرال سے انفارمیشن لی جاسکے۔ تاہم متعدد لیٹرز لکھے جانے کے باجود اب تک ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا ہے۔ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی سیریس معاملہ ہے، لیکن ایف بی آر حکام جان بوجھ کر ریکارڈ فراہم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول ایف بی آر کے پرال سسٹم کے حوالے سے ایف آئی اے میں اس وقت ایک درجن سے زائد انکوائریاں مختلف سرکلز میں چل رہی ہیں، جن میں بے نامی کمپنیاں چلا کر اربوں روپے کا کاروبار کرنے والے ٹیکس چوروں نے شہریوں کے کوائف استعمال کئے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس ضمن میں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں تقریباً 9 انکوائریاں رجسٹرڈ ہوچکی ہیں، جو مختلف شہریوں کی جانب سے پرال کیخلاف دی گئی تحریری درخواستوں پر شروع کی گئی ہیں۔ تاہم پرال اور ایف بی آر کے متعلقہ حکام انکوائریوں کے حوالے سے ایف آئی اے کو مطلوب ریکارڈ فراہم کرنے میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں، جس کی وجہ سے جعل سازی میں ملوث مافیا کو نہ صرف فائدہ پہنچ رہا ہے بلکہ یہ فراڈ مزید بڑھ رہا ہے۔ ذرائع کے بقول کراچی کے کئی شہریوں نے اس وقت ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل سے رجوع کیا، جب انہیں ایف بی آر کی جانب سے کاروبار کرنے اور منافع حاصل کرنے پر کروڑوں روپے ٹیکس ادا کرنے کے نوٹس بھیجے گئے۔ نوٹس ملنے پر مذکورہ شہری پریشان ہوگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نہ تو ایسا کوئی کاروبار کیا اور نہ ہی کسی کمپنی کے ذریعے سامان امپورٹ یا ایکسپورٹ کیا۔ اس لئے انہیں بھیجے گئے ٹیکس ادائیگی کے نوٹس بے جا ہیں۔ تاہم شہریوں کے اعتراض پر تحقیقات کرنے کے بجائے ایف بی آر کے متعلقہ حکام نے شہریوں کو پرال کی انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی ہدایت دی۔ لیکن پرال کی جانب سے شہریوں کی مدد کرنے کے بجائے انہیں کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے انکار کردیا گیا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ پرال کی انتظامیہ سے اپنے نام پر قائم کمپنیوں کے ریکارڈ میں جعلی ای فارم اور آن لائن ریٹرن فائل ہونے والی معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے، تاکہ معلوم ہوسکے کہ ان کے ساتھ یہ فراڈ کس نے کیا ہے۔ تاہم پرال کی انتظامیہ نے کوئی مدد نہیں کی، حالانکہ یہ جعل سازی پرال کے سسٹم میں ہوئی ہے۔ بعد ازاں مجبور ہوکر شہریوں نے ایف بی آر کے ٹیکس طلبی کے نوٹسوں پر عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کرکے ایف آئی اے کو انصاف کے حصول کیلئے درخواستیں دی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل میں پرال اور متعلقہ ایف بی آر حکام کے خلاف تحقیقات شروع ہونے کے بعد ابتدائی طور پر ایف آئی اے این آر تھری سی کے ذریعے لیٹر ارسال کرکے ریکارڈ طلب کیا گیا۔ جس پر پرال کی انتظامیہ کی جانب سے کہا گیا کہ وہ سرکاری اور حساس ریکارڈ کے محافظ ہیں اور ایف بی آر کے تحت کام کرتے ہیں، اس لئے مذکورہ ریکارڈ ایف بی آر کے حکام کے ذریعے ہی دے سکتے ہیں۔ بعد ازاں یہ ریکارڈ طلب کرنے کیلئے ڈائریکٹر ایف آئی اے سندھ کے ذریعے بھی لیٹر ارسال کئے گئے، تاہم متعلقہ افراد کی جانب سے ریکارڈ فراہم کرنے میں تاخیری حربے استعمال کئے جارہے ہیں، جس سے نہ صرف تحقیقات متاثر ہورہی ہیں، بلکہ شہریوں کے کوائف استعمال کرکے حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان پہنچانے والی مافیا کو بھی فائدہ پہنچ رہا ہے۔ دوسری جانب اس غیر قانونی کام میں ملوث افسران کو بھی بچایا جارہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی سنگین معاملہ ہے، کیونکہ پورے ملک میں ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے علاوہ تمام کمپنیوں کے ٹیکس اور این ٹی این نمبروں کا ریکارڈ مرتب کرنے اور اس کو محفوظ بنانے کیلئے حکومت اب تک اربوں روپے خرچ کرچکی ہے۔ لیکن اس کے باجود اگر یہ سسٹم غیر محفوظ ہوجائے اور اس میں جعل سازیاں ہونے لگیں تو پھر تمام اقدامات بے سود ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایک بار ایف آئی اے کو ریکارڈ مل گیا اور تحقیقات کو آگے بڑھایا گیا تو کئی دیگر معاملات بھی سامنے آسکتے ہیں، جس کے خوف کی وجہ سے ریکارڈ کی فراہمی سے گریز کیا جارہا ہے۔ ذرائع کے بقول تحقیقات میں شامل افسران کی جانب سے ان خدشات کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ تاخیری حربے استعمال کرنے کے بعد جو ریکارڈ فراہم کیا جائے گا، اس میں ردو بدل کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ پرال کے سسٹم سے ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے فارنسک ماہرین خود ریکارڈ حاصل کریں، تاکہ تبدیلی کا کوئی احتمال نہ رہے۔ ذرائع کے مطابق پرال کی کارکردگی کے حوالے سے خود ایف بی آر کے حکام میں بھی تشویش پائی جاتی ہے اور کئی افسران اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دنوں ایف بی آر کے ڈائریکٹر جنرل ریفارمز اینڈ آٹومیشن کی جانب سے میسرز پرال کے حکام کو واضح ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ وہ اپنے سسٹم کو فوری طور پر اپ گریڈ کریں، تاکہ ون ونڈو کسٹم کے وی بوک نظام کو بغیر کسی تعطل کے مسلسل چلایا جاسکے اور روزانہ کی بنیاد پر فائل ہونے والی جی ڈیز اور دیگر امور کا ریکارڈ بھی مرتب کیا جاسکے۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ کسٹم کے تحت ہونے والی تمام برآمدات اور درآمدات کیلئے تاجروں اور ان کے ایجنٹوں کی جانب سے جس آن لائن سسٹم کے تحت دستاویزات داخل کرائی جاتی ہیں وہ سسٹم وی بوک کہلاتا ہے اور اس سسٹم کو بھی پرال کمپنی کی انتظامیہ چلاتی ہے، اس سسٹم میں جمع ہونے والی دستاویزات کی جانچ پڑتال کسٹم کے ایگزامنگ اور اسسمنٹ کے افسران آن لائن ہی کرتے ہیں، جبکہ ان امور کے حوالے سے بینکوں میں جمع ہونے والی رقوم کے لین دین کا حساب کتاب بھی اسی سسٹم کے تحت کیا جاتا ہے۔ تاہم پرال کمپنی کی ٹیم کی ناکافی صلاحیتوں کی وجہ سے آئے روز وی بوک کا سسٹم یا تو مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رک جاتا ہے یا اس میں تعطل پیدا ہوجاتا ہے، جس کی وجہ سے ملک بھر میں کسٹم کے تمام امور بشمول درآمدات اور برآمدات ٹھپ ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے اس ضمن میں موقف لینے کیلئے ’’اسٹار ٹیکنالوجی‘‘ کے آفس فون کیا گیا تو فون ریسیو کرنے والے ملازم کی جانب سے کہا گیا کہ فی الوقت موقف دینے کیلئے کوئی ذمہ دار شخص موجود نہیں ہے ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment