شام میں حضرت خالد بن ولیدؓ جبلہ بن ایہم کی قوم کے ساتھ مقابلہ کر رہے تھے، ایک روز مسلمانوں کے قلیل لشکر کا دشمن سے آمنا سامنا ہوا تو انہوں نے رومیوں کے بڑے افسر کو مار دیا، اس وقت جبلہ نے تمام رومی اور عیسائی فوج کو یکبارگی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ صحابہؓ کی حالت نہایت نازک تھی اور رافع ابن عمر طائیؓ نے سیدنا خالدؓ سے کہا ’’آج معلوم ہوتا ہے کہ ہماری قضا آگئی۔‘‘ خالدؓ نے کہا: سچ کہتے ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ میں وہ ٹوپی بھول آیا ہوں، جس میں حضور اقدسؐ کے موئے مبارک ہیں۔ ادھر یہ حالت تھی اور ادھر رات ہی کو آپؐ نے سیدنا ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو جو فوج کے سپہ سالار تھے خواب میں زجر و توبیخ فرمائی کہ تم اس وقت خواب غفلت میں پڑے ہو، اٹھو اور فوراً خالد بن ولیدؓ کی مدد کو پہنچو کہ کفار نے ان کو گھیر لیا ہے۔ اگر تم اس وقت جاؤ گے تو وقت پر پہنچ جاؤ گے۔
سیدنا ابو عبیدہؓ نے اسی وقت لشکر کو حکم دیا کہ جلد تیار ہو جائے۔ چنانچہ وہاں سے وہ مع فوج یلغار کے لئے روانہ ہوئے۔ راستے میں کیا دیکھتے ہیں کہ فوج کے آگے آگے نہایت سرعت سے ایک سوار گھوڑا دوڑاتے ہوئے چلا جا رہا ہے۔ اس طرح کہ کوئی اس کی گرد کو نہیں پہنچ سکتا تھا۔ انہوں نے خیال کیا کہ شاید کوئی فرشتہ ہے، جو مدد کے لئے جا رہا ہے، مگر احتیاطاً چند تیز رفتار سواروں کو حکم کیا کہ اس سوار کا حال دریافت کریں، جب قریب پہنچے تو پکار کر اس جوان کو توقف کرنے کے لئے کہا، یہ سنتے ہی وہ جسے جوان سمجھ رہے تھے رکا تو سواروں نے دیکھا کہ وہ تو سیدنا خالد بن ولیدؓ کی اہلیہ محترمہ تھیں۔
ان سے حال دریافت کیا گیا تو وہ گویا ہوئیں: کہ اے امیر! جب رات کے وقت میں نے سنا کہ آپ نے نہایت بے تابی سے لوگوں سے فرمایا کہ خالد بن ولیدؓ کو دشمن نے گھیر لیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ ناکام کبھی نہ ہوں گے، کیونکہ ان کے ساتھ آنحضرتؐ کے موئے مبارک ہیں، مگر اتفاقاً ان کی ٹوپی پر نظر پڑی جو وہ گھر بھول آئے تھے اور جس میں موئے مبارک تھے۔ بعجلتِ تمام میں نے ٹوپی لی اور اب چاہتی ہوں کہ کسی طرح اس کو ان تک پہنچا دوں۔
حضرت ابوعبیدہؓ نے فرمایا: جلدی سے جاؤ، خدا تمہیں برکت دے۔ چنانچہ وہ گھوڑے کو ایڑ لگا کر آگے بڑھ گئیں۔ حضرت رافع بن عمرؓ سیدنا خالدؓ کے ساتھ تھے، بیان کرتے ہیں کہ ہماری یہ حالت تھی کہ اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تھے، یکبار گی تہلیل و تکبیر کی آوازیں بلند ہوئیں، حضرت خالدؓ کو تجسس ہوا کہ یہ آواز کدھر سے آرہی ہے کہ اچانک ان کی رومی سواروں پر نظر پڑی جو بدحواس ہو کر بھاگے چلے آ رہے تھے اور ایک سوار ان کا پیچھا کر رہا تھا۔
حضرت خالدؓ گھوڑا دوڑا کر اس سوار کے قریب پہنچے اور پوچھا کہ اے جوانمرد تو کون ہے؟ آواز آئی کہ میں تمہاری اہلیہ ام تمیمؓ ہوں اور تمہاری مبارک ٹوپی لائی ہوں، جس کی برکت سے تم دشمن پر فتح پایا کرتے تھے۔
راوی حدیث قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب سیدنا خالدؓ نے ٹوپی پہن کر کفار پر حملہ کیا تو لشکر کفار کے پاؤں اکھڑ گئے اور لشکر اسلام کو فتح نصیب ہوئی۔ (تاریخ واقدی۔ مقاصد الاسلام، 9 : 273 – 275)
٭٭٭٭٭