عباس ثاقب
مزید کچھ باتوں پر صلاح مشورے کے بعد میں نے ظہیر کو اپنے ساتھ لیا اور مانک کے جسم فروشی کے اڈے کے طور پر استعمال ہونے والے مسافر خانے ’’شانتی استھان‘‘ کی طرف چل دیا۔ مجھے کافی حد تک راستہ یاد تھا، اس لیے زیادہ نہیں بھٹکنا پڑا۔ میں نے ظہیر کو مسافر خانے سے کچھ پہلے اتارا اور اسے وہیں انتظار کرنے کا کہہ کر اپنی منزل کی طرف چل دیا۔ مسافر خانے کے سامنے جیپ رکتے ہی دو منزل عمارت کی چوکی داری پر تعینات شاٹ گن سے مسلح کارندہ میرے پاس پہنچ گیا اور دیہی پنجابی لہجے میں پوچھا۔ ’’جی سرکار؟ کیسے آنا ہوا؟‘‘۔ یہ پہلے والا چوکی دار نہیں تھا۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’یار مسافر ہوں، ایک دو دن گزارنے کے لیے ٹھکانا چاہیے۔ یہ شانتی استھان ہی ہے ناں؟‘‘۔
میری بات سن کر اس نے عجیب سے لہجے میں کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے باؤ جی، پر آپ کو پتا ہے یہ کوئی عام مسافر خانہ نہیں ہے، میرا مطلب ہے…‘‘۔
میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’یار مجھے پتا ہے، یہاں گرم گوشت بھی بکتا ہے!‘‘۔ یہ کہتے ہوئے میں نے ساتھ میں اوباشوں کے مخصوص انداز میں آنکھ بھی دبائی۔ یکایک اس کے چہرے پر کمینی مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے اسے مزید مطمئن کرنے کے لیے کہا۔ ’’تم فکر نہ کرو، رندھیر مشرا جی میرے واقف ہیں اور میرے لیے پہلے سے کمرا بُک ہے‘‘۔
اس نے گرم جوشی سے میرا خیر مقدم کیا۔ میں نے جیپ سے اتر کر پانچ روپے کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھمایا تو اس کی بانچھیں کھل گئیں۔ میں نے اس سے بے تکلفی بڑھانے کے لیے پوچھا۔ ’’یار پہلے تو یہ بتاؤ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘۔
اس نے مستعدی سے کہا۔ ’’میں منگت سنگھ ہوں جی۔ آج کل دن کے وقت میری ڈیوٹی ہوتی ہے۔ کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتا دینا!‘‘۔
اس نے لفظ ضرورت پر خاص زور دیا تھا۔ میں نے سمجھنے کے اقرار میں سر ہلایا اور کہا۔ ’’میں یاد رکھوں گا منگت سنگھ۔ اچھا یہ بتاؤ، شانتی استھان میں اسلحہ ساتھ لے جانے پر تو کوئی روک ٹوک نہیں ہے؟ دراصل میری شاٹ گن ہے میرے ساتھ‘‘۔
منگت سنگھ نے نفی میں سر ہلاکر کہا۔ ’’نہیں جی، رئیس مہمان اور ان کے محافظ ہتھیار ساتھ لاتے رہتے ہیں۔ بس آپ مشرا جی کو بتا ضرور دینا‘‘۔
میں نے اطمینان کا سانس لیا اور الکھ سنگھ سے بطور مال غنیمت ہتھیائی ہوئی شاٹ گن اور کارتوسوں کی تھیلی ساتھ لیے سیڑھیاں چڑھ کر رندھیر مشرا کی رہائش اور دفتر کے طور پر استعمال ہونے والے کمرے میں جا دھمکا۔ میری گزشتہ آمد کے موقع پر میں نے یقیناً اس کالے کلوٹے، بھالو نما شخص پر کوئی واضح تاثر چھوڑا ہوگا۔ کیونکہ وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان گیا اور پُرجوش انداز میں خیر مقدم کرتے ہوئے کہنے لگا۔ ’’آپ تو صبح آنے والے تھے بہادر سنگھ جی، میں انتظار کر رہا تھا‘‘۔
میں نے اپنے ہاتھ میں موجود شاٹ گن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ارادہ تو صبح ہی آنے کا تھا مشرا جی، بس سنگرور کے جنگل میں شکار پر ساتھ آنے والے یاروں کو رخصت کرتے کرتے دیر ہوگئی۔ تم یہ بتاؤ مانک جی چندی گڑھ سے واپس آئے یا نہیں؟‘‘۔
اس نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’آج دوپہر ہی واپس آئے ہیں سرکار۔ میں نے ان سے خاص طور پر آپ کا ذکر کیا ہے۔ وہ بھی آپ سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔ آج رات چکر لگائیں گے یہاں کا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’یہ تو بہت اچھی خبرسنائی تم نے۔ ٹھیک ہے، مجھے میرا کمرا دکھاؤ۔ میں یہ گن رکھ کر دوبارہ پٹیالے کی سیر کے لیے نکلوں گا‘‘۔
رندھیر نے اثبات میں سر ہلایا اور مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے کمرے سے باہر نکل آیا۔ راہ داری میں آگے بڑھتے ہوئے اس نے مجھے کہا۔ ’’ویسے تو آپ سے کچھ چھپا ہوا بھی نہیں ہے، لیکن یہ بتانا میری ڈیوٹی ہے کہ یہاں ہر طرح کے آڑھے ٹیڑھے لوگوں سے آپ کا سامنا ہوگا۔ بہت سے لوگ مدہوش ملیں گے، کچھ دولت اور کچھ دارو کے نشے میں۔ آپ سمجھ دارہیں۔ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ خوامخواہ کسی سے الجھنا مناسب نہیں ہے۔ کوئی بھی مسئلہ ہو تو اس خادم کو اطلاع دینا، میں سب ٹھیک کردوں گا‘‘۔
اس دوران میں وہ مجھے لے کر ایک صاف ستھرے اور نسبتاً کشادہ و آراستہ کمرے میں آچکا تھا۔ میں نے اطمینان کا اظہار کیا تو اس نے کمرے کے دروازے پر لٹکے بھاری سی قفل کی چابی میرے حوالے کردی۔ میں نے اس کے بتائے ہوئے یومیہ کرائے سے تین گنا پیشگی رقم مع پچاس روپے بخشش اس کے حوالے کر دی۔ اس کے توے جیسے سیاہی مائل چہرے پر یکایک چمک آگئی اور اس نے دانت نکالتے ہوئے مجھے دھن باد کہا۔
میں نے شاٹ گن اور کارتوس کی تھیلی ایک الماری میں بند کرتے ہوئے کہا۔ ’’مشرا جی، مجھے اس الماری کے لیے بھی تالا چاہیے‘‘۔
اس نے جلدی سے کہا۔ ’’کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے سردار جی، میں ابھی لے کر آتا ہوں‘‘۔ اس نے کچھ ہی دیر میں میری فرمائش پوری کر دی۔ میں نے الماری مقفل کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’کیا مانک کو میرے آنے کی اطلاع کی جاسکتی ہے؟ میں جلد از جلد اس سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔
اس نے قدرے ہچکچاہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’وہ شاید ناری نکیتن کی طرف گئے ہوں گے۔ میرا خیال ہے ڈیڑھ دو گھنٹے بعد یہیں آئیں گے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے، میں یہیں اس سے مل لوں گا۔ میرے لیے رات کے کھانے کا بندوبست نہ کرنا، میںایک گھنٹے کے لیے باہر جارہا ہوں، کھانا باہر ہی کھاکر آؤں گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭