سیدنا حضرت موسیٰؑ کے زمانے میں سحر (جادو) کا چرچا تھا، حق تعالیٰ نے ان کو عصا (لاٹھی جس میں بے شمار خوبیاں تھیں) اور ید بیضاء کا معجزہ عطا فرمایا اور حضرت عیسیٰؑ کے زمانے میں طب و حکمت کا زور تھا۔ حق تعالیٰ نے ان کو شفاء مرضیٰ اور احیاء موتیٰ (مردوں کو زندہ کرنا) کا معجزہ عطا فرمایا اور ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیؐ کے عہد مبارک میں فصاحت و بلاغت کا چرچا تھا۔ عرب لوگ اپنے سوا تمام ممالک کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے اور اب بھی کہتے ہیں۔
پس سب سے بڑا معجزہ حق تعالیٰ جل شانہ نے آپؐ کو قرآن کریم کا عطا فرمایا، جس کی فصاحت و بلاغت، سلاست و دل آویزی اور لطافت کے مقابلے سے بڑے بڑے فصیح و بلیغ عاجز رہے اور یہی معجزہ کی تعریف ہے کہ جس کے مقابلے سے دنیا عاجز ہو۔ قرآن کریم آپؐ کا سب سے بڑا علمی معجزہ ہے اور تمام حضرات انبیاء علیہم السلام کے معجزات سے بڑھا ہوا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ علم کو عمل پر شرف و فضیلت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فن میں استادوں کی تعظیم کی جاتی ہے اور ہر محکمہ یا ادارہ میں افسروں کی تنخواہ اہلکاروں سے زیادہ ہوتی ہے، یہ شرف علم ہی تو ہے۔ محنت تو اہل کار زیادہ کرتے ہیں۔ قرآن مجید حضور اقدسؐ کے بے شمار معجزات میں سے عمدہ ترین علمی معجزہ ہے۔
سب انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کے معجزے ایک خاص وقت میں ظاہر ہوئے اور ختم ہوگئے اور قرآن پاک ایسا معجزہ ہے کہ جس کی جانب زوال انقطاع کو راہ نہیں۔ ابتداء نزول سے لے کر اب تک بلاتغیر و تبدل اور بلاکم وکاست باقی اور محفوظ ہے اور یہ معجزہ تا قیامت اسی طرح باقی رہے گا، جس طرح آپؐ پر نازل ہوا تھا۔
(منقول از سیرت المصطفیٰؐ جلد چہارم ص 528)
٭٭٭٭٭