محدثین کے حیران کن واقعات

امام بخاریؒ نے لاکھوں احادیث میں سے منتخب کر کے صحیح بخاری میں سات ہزار سے کچھ زیادہ احادیث جمع فرمائی ہیں، جو سب کی سب صحیح ہیں، البتہ بعض محدثین نے سات یا آٹھ احادیث کی سند پر کلام کیا ہے، مگر صحیح بات یہ ہے کہ تمام احادیث صحیح ہیں۔ متعدد احادیث مختلف ابواب میں بار بار مذکور ہوئی ہیں۔ تقریباً تین ہزار احادیث اس کتاب میں غیر مکررہ ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تمام ہی صحیح احادیث اس کتاب میں جمع ہوگئی ہیں، بلکہ صحیح احادیث کی ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جو امام بخاریؒ کے علاوہ دیگر محدثین نے اپنی کتابوں میں ذکر کی ہے، جیسا کہ امام بخاریؒ نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔
حرام مال سے پرہیز:
امام بخاریؒ (متوفی 256ھ) کے زمانے میں احادیث مبارکہ کی سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں، کئی مصنفین و محدثین کا اس زمانے میں دور دورہ تھا، ایک ایک محدث کے سینکڑوں شاگرد ہوا کرتے تھے، ان سب کے باوجود جو قبولیت حق تعالیٰ نے امام بخاریؒ اور ان کی کتاب کو نصیب فرمائی، وہ دوسروں کے حصے میں نہیں آئی، اس کے اسباب و وجوہات پر نظر کرتے ہوئے علماء نے فرمایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ان کے والد بزرگوار نے اپنے بچے کے لیے حلال اور پاکیزہ غذا کا اہتمام کیا تھا، حرام اور مشتبہ مال سے اپنے اہل و عیال کی حفاظت فرمائی تھی، جس حلال کی برکت اتنے بڑے علمی کارنامے کے ذریعہ ظاہر ہوئی، بخاری شریف کو قرآن کریم کے بعد صحیح ترین کتاب کا درجہ حاصل ہوا ہے، انسان کے کارنامے کو یہ درجہ حاصل ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ علماء نے فرمایا کہ اس درجے کے حاصل ہونے میں ان کے والد کا کھانے کے سلسلے میں کمال احتیاط کو بڑا دخل ہے، جب کہ ان کے والدؒ نے انتقال کے موقع پر اپنے کثیر مال کے تعلق سے فرمایا تھا کہ ’’میرے مال میں کوئی درہم حرام تو درکنار شبہ کا بھی نہیں ہے۔‘‘ (فتح الباری 1/479)
اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر ایک اپنی آمدنی کے ذرائع پر نظر رکھے۔ پاکیزہ اور طیب کی تلاش میں رہے اور حرام و ناپاک مال سے اجتناب کرے۔
غیبت سے اجتناب:
حدیث مبارک میں آپؐ نے مسلمانوں کی جو تعریف کی ہے کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ وزبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ (مشکوۃ، ص: 12) اس لحاظ سے دوسرے مسلمان کو ہاتھ سے اذیت پہنچانا تو دشوار ہے، لیکن زبان سے اذیت دی جا سکتی ہے اور اس سے بچنا نہایت دشوار کن مرحلہ ہے، اس میں بھی غیبت سے بچنا بہت ہی مشکل ہے، نیز ایسے موقع پر جب کہ مخالفین کی جانب سے زبان و قلم کے نشتر چلائے جا رہے ہوں اور مخالفین نیچا دکھانے کے لیے ہر جانب سے کوشاں ہوں، اس کے باوجود حق پر زبان کی استقامت میں ذرہ برابر فرق نہ آنا یہ امام بخاریؒ کی کرامت سے بڑھ کر ہے، امام بخاریؒ نے فرمایا: جب سے مجھے غیبت کے حرام ہونے کا پتہ چلا تب سے میں نے کسی کی غیبت نہیں کی۔ (فتح الباری)
ایک اور روایت میں یوں ہے کہ مجھے امید ہے کہ حق تعالیٰ سے میں اس حالت میں ملوں گا کہ رب تعالیٰ غیبت کے سلسلے میں مجھ سے حساب نہیں لیں گے، کیوں کہ میں نے کسی کی غیبت نہیں کی، یہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے رب تعالیٰ نے انہیں مقبولیت کا یہ مقام ومرتبہ نصیب فرمایا، غیبت کے سلسلے میں جس قدر سخت وعیدیں قرآن وسنت میں وارد ہوئی ہیں، اسی قدر اس میں ابتلاء بھی عام ہے، ایسے میں اپنی زبان پر قابو رکھنا اور مخالفین کے سلسلے میں زبان کو ساکت رکھنا اور دوسروں کا تذکرہ برائی سے نہ کرنا، یہ ایسی خصوصیت ہے کہ جس کی آج ہر عام و خاص، عالم وجاہل کو ضرورت ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment