سید نبیل اختر
کے ایم سی کے کرپٹ ڈائریکٹرز نے گٹر باغیچہ میں 200 ایکڑ اراضی پر قائم تجاوزات تاحال ختم نہیں کئے۔ کے ایم سی ہاؤسنگ اسکیم ’’آباد کاری‘‘ کے نام پر غیر قانونی طریقے سے 1993ء میں اراضی الاٹ کرائی گئی۔ 10 سال تک منصوبے پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ جعلسازی کا پتہ چلنے پر حکومت سندھ نے 2003ء میں الاٹمنٹ منسوخ کر کے قبضہ واگزار کرانے کا حکم دیا تو متحدہ کے 400 دہشت گردوں کو چائنا کٹنگ کے ذریعے پلاٹ الاٹ کر دیئے۔ مصطفی کمال کے دور میں کسی ادارے نے قبضہ واگزار نہ کرایا تو ہارون آباد انڈسٹریل ایریا کے نام پر قرارداد کے ذریعے 158 ایکڑ اراضی ٹھکانے لگادی گئی۔ 1200 روپے فی گز کے حساب سے 90 سالہ لیز دینے پر 200 سے زائد فیکٹریوں سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کیا گیا۔ 2017ء سے اب تک مذکورہ تجاوزات کے خاتمے کے متعدد احکامات ملتے رہے، تاہم متحدہ دہشت گردوں کی جائے پناہ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ ایک حصے میں 10 ایکڑ اراضی پر چھوٹے کارخانہ داروں کو قبضہ دلایا گیا۔ حالیہ آپریشن میں اربوں روپے کی اراضی واگزار کرانے کا کوئی منصوبہ زیر غور بھی نہیں۔ عدالتی احکامات کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔
کے ایم سی کے اہم ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت سندھ اور عدالتی احکامات کے با وجود گٹر باغیچہ کی 200 ایکڑ سے زائد اراضی سے قبضہ ختم کرنا میئر کراچی اور ان کی ٹیم کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال کے دور کے بعد سے اب تک حسرت موہانی کالونی اور اطراف کے علاقوں سے متصل گٹر باغیچہ کی اراضی نو گو ایریا بنی ہوئی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ 1993ء میں کے ایم سی نے مذکورہ اراضی کو غیر استعمال شدہ (فالتو) ظاہر کر کے یہاں کے ایم سی ملازمین کو آپریٹیو ہاؤسنگ سوسائٹی کے قیام کیلئے 200 ایکڑ اراضی حاصل کی تھی۔ ’’امت‘‘ کو مذکورہ حکم نامے کی نقل موصول ہوئی، جس کے مطابق 25 جولائی 1993ء کو لوکل گورنمنٹ کی جانب سے میونسپل کمشنر کو لیٹر نمبر No.so(vi)1-77/93 بھیجا گیا۔ لیٹر میں کے ایم سی کی 200 ایکڑ اراضی پر کے ایم سی آفیسرز ہاؤسنگ سوسائٹی کیلئے منظوری دی گئی تھی۔ خط میں کہا گیا کہ کے ایم سی کی 11 مارچ 1993ء کی قرارداد کی منظوری کے بعد 200 ایکڑ اراضی کے ایم سی آفیسرز سوسائٹی کو الاٹ کردی گئی ہے۔ یہ اراضی 10 روپے فی گز کے حساب سے دی جائے گی اور 15 روپے ڈویلپمنٹ چارجز کی مد میں فی کس وصول کئے جائیں گے۔ وصولی کے بعد مذکورہ اراضی 90 سال کی لیز کیلئے کے ایم سی ہائوسنگ سوسائٹی کی ملکیت ہوگی۔
ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ اراضی حاصل کرنے کے بعد پروجیکٹ پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور منصوبہ بنایا جاتا رہا کہ 200 ایکڑ اراضی کی آڑ میں کس طرح 1016 ایکڑ اراضی پر قبضہ کیا جا سکے۔ مذکورہ منصوبے میں ڈائریکٹر کے ایم سی مظہر خان، ڈائریکٹر ریحان خان اور متحدہ کی مقامی قیادت شامل رہی۔ کے ایم سی افسران نے رائے دی کہ پہلے 200 ایکڑ اراضی پر آباد کاری پروجیکٹ مکمل کر لیا جائے تو باقی اراضی پر قبضہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ تاہم متحدہ قیادت نے پروجیکٹ کے بجائے ایک دوسرا بڑا منصوبہ بنا رکھا تھا، جس میں 600 ایکڑ رہائشی، جبکہ باقی ایریا انڈسٹریل ٹریڈ اسٹیٹ کے نام سے بنا کر فیکٹری مالکان سے کروڑوں روپے بھتہ وصول کرنا تھا۔ متحدہ قومی موومنٹ پرویز مشرف کے اقتدار سنبھالنے کے بعد طاقت میںآئی تو اس نے رہائشی پروجیکٹ سے دیہان ہٹا لیا اور ساری توجہ مزید 200 ایکڑ اراضی پر قائم کئے جانے والے انڈسٹریل ایریا پر مرکوز کر دی۔ ابھی منصوبہ بنایا ہی جا رہا تھا کہ سندھ حکومت نے بلدیہ عظمیٰ کراچی کی جلعسازی پکڑ لی اور آباد کاری پروجیکٹ کو الاٹ کی گئی 200 ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کردی۔ ’’امت‘‘ کو مذکورہ احکامات کی نقل موصول ہوئی جو کہ 6 اکتوبر 2003 کو جاری کیا گیا تھا۔ لوکل گورنمنٹ کی جانب سے بھیجے گئے خط میں ڈی سی او کو ہدایت کی گئی تھی کہ فوری طور پر مذکورہ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کر کے اراضی واگزار کرائی جائے۔ خط کے متن میں 12 ستمبر 2001ء کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا، جس پر عملدرآمد سے گریز کیا گیا۔ الاٹمنٹ منسوخی کا یہ حکم نامہ اینٹی کرپشن اور ایس اینڈ جی اے ڈی کو بھیجا گیا، تا کہ فوری طور پر اس پر کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔
اس وقت نعمت اللہ خان سٹی ناظم تھے، جن کے ہوتے ہوئے اس غیر قانونی کام پر عملدرآمد ممکن نہیں تھا۔ متحدہ کی قیادت نے اگلے بلدیاتی الیکشن کا انتظار کیا، کیونکہ اگلے انتخابات میں متحدہ کی کامیابی کی یقین دہانی کرادی گئی تھی۔ مصطفی کمال سٹی ناظم بنے تو سب سے پہلے کے ایم سی کے آباد کاری پروجیکٹ کے نام پر غیر قانونی طور پر 400 متحدہ دہشت گردوں کیلئے پلاٹ کاٹ کر چائنا کٹنگ کی گئی۔ اس دوران کے ایم سی کے ڈائریکٹرز مظہر خان اور ریحان خان نے اپنی خدمات پیش کیں۔ انہیں گٹر باغیچہ میں ہی ایک سب آفس بنا کر دیا گیا، تاکہ وہ پلاٹوں کو کاٹ کر متحدہ دہشت گردوں کو فراہم کر سکیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے 20 ایکڑ اراضی پر متحدہ کے لوگ بٹھا دیے گئے۔ ذرائع نے بتایا کہ متحدہ کے دہشت گردوں کو پلاٹ پر قبضہ دینے کے بعد لیاری گینگ وار نے بھی گٹر باغیچہ میں قبضہ شروع کیا اور 2 ایکڑ اراضی ہتھیانے میں کامیابی حاصل کی۔ کچھ حصہ عوامی نیشنل پارٹی کے ہاتھ بھی لگ گیا۔ ایسے میں مقامی این جی او نے معاملے کے خلاف آواز اٹھانا شروع کردی۔ ذرائع نے بتایا کہ کے ایم سی کے ڈائریکٹر نے متحدہ قیادت کو کہا کہ کچھ عرصہ رکنے پر مزید قبضہ حاصل کیا جا سکتا ہے اور تب مزید دہشت گرد یہاں بسائے جا سکتے ہیں۔ متحدہ دہشت گردوں نے کے ای ایس سی (اب کے الیکٹرک) سے بجلی حاصل کر کے اپنا قبضہ پکا کر لیا۔ ذرائع نے بتایا کہ مذکورہ قبضے کے خلاف شہریوں کی جانب سے عدالتوں میں پٹیشن داخل کی جاتی رہی، تاہم ان قبضہ مافیا کے خلاف کے ایم سی نے کسی بھی قسم کی کارروائی سے گریز کئے رکھا۔ جبکہ مذکورہ کروڑوں روپے کی اراضی دراصل کے ایم سی ہی کی ملکیت تھی، جس کے اپنے ڈائریکٹرز اسے متحدہ دہشت گردوں کے حوالے کرچکے تھے۔
ذرائع نے بتایا کہ جب متحدہ کے 400 دہشت گردوں کا قبضہ ہو گیا تو انڈسٹریل اسٹیٹ کے پروجیکٹ پر کام شروع کیا گیا۔ اس کے لئے سابق ڈی سی او کی خدمات بھی حاصل کی گئیں، جنہیں کے ایم سی کے افسران نے الاٹمنٹ کے بعد سنہرے خواب دکھا رکھے تھے۔ معلوم ہوا ہے کہ کے ایم سی کے کرپٹ ڈائریکٹرز نے گٹر باغیچہ کی 158 ایکڑ اراضی پر ہارون آباد انڈسٹریل ایریا کے قیام کی تجویز پیش کی، جسے مصطفی کمال نے منظور کر لیا۔ اس پروجیکٹ میں کروڑوں روپے بھتہ وصول کرنے کے بعد انڈسٹریل اسٹیٹ کی اراضی تاجروں کو 12 سو روپے فی گز کے حساب سے الاٹ کی گئی۔ یہ الاٹمنٹ 2010ء میں ایک قرارداد کے ذریعے ہوئی، جسے نائب ناظمہ نسرین جلیل نے منظوری دی۔ دیکھتے ہی دیکھتے پورا انڈسٹریل اسٹیٹ بنا دیا گیا، جس میں 200 سے زائد فیکٹریاں اور کارخانے شامل ہیں۔ دوسری جانب مذکورہ انڈسٹریل اسٹیٹ اور غیر قانونی پلاٹوں کے بعد قبضہ مافیا نے چھوٹے کارخانہ داروں کو مزید 10 ایکڑ اراضی اونے پونے داموں فروخت کیں اور کے ایم سی افسران کو ان کا حصہ پہنچا دیا۔
’’امت‘‘ کو ذرائع نے بتا یا کہ 2017ء کے آغاز تک شہریوں کی جانب سے عدالتوں میں پٹیشن ڈالی جاتی رہیں اور متعلقہ اداروں کو شکایتی خطوط بھیجنے کا سلسلہ بھی جاری رہا، تاکہ سرکاری اراضی سے قبضہ ختم کرایا جاسکے۔ تاہم وزارت بلدیات نے حرکت میں آتے آتے سات سال لگادیئے۔ ذرائع کے مطابق سینکڑوں ایکڑ قیمتی اراضی سے قبضہ واگزار کرانے کے لئے شہر کی کئی شخصیات نے خطوط لکھے، تاہم میونسپل کمشنر کراچی کو 6 جولائی 2017ء کو لوکل گورنمنٹ حکومت سندھ کی جانب سے گٹر باغیچہ میں ہوئی تجاوزات کے خاتمے کے لئے خط No.Sov/LG/12-100/2017 بھیجا گیا۔ خط میں کہا گیا کہ سندھ شہری فیڈریشن کی شکایت پر آپ کو ہدایت کی جاتی ہے کہ گٹر باغیچہ سے قبضہ ختم کرا کے سرکاری اراضی واگزار کرائی جائے۔ خط میں 1993ء کی الاٹمنٹ سے متعلق کہا گیا کہ مذکورہ الاٹمنٹ کے ایک لیٹر کے سوا کوئی ریکارڈ موجود نہیں، جسے منسوخ سمجھا جائے۔ خط میں یہ بھی کہا گیا کہ متعدد بار مطالبے کے باوجود کے ایم سی افسران نے ریکارڈ ظاہر نہیں کیا کہ کن ملازمین و افسران کو مذکورہ اراضی پر الاٹمنٹ دی گئی تھی۔ لہذا تمام الاٹمنٹس منسوخ کردی گئی ہیں۔ خط میں قبضہ مافیا کے خلاف کارروائی سے متعلق سخت ہدایات بھی دی گئیں۔ کے ایم سی کو 13 جون 2017ء کو ایک لیٹر کے ذریعے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ کے ایم سی کی جانب سے الاٹمنٹ منسوخی کا ریکارڈ فراہم کرے، لیکن ادارے نے کوئی جواب داخل نہیں کیا۔
’’امت‘‘ کو مارچ 2018ء میں گٹر باغیچہ سے متعلق ایک عدالتی کارروائی کا احوال بھی معلوم ہوا، جس میں درخواست گزاروں اردشیر کائوس جی، رولینڈ ڈی سوزا، سماجی تنظیم شہری، بلوچ پروموٹِو ویلفئرسوسائٹی، انجمن فلاح بہبود قدیم محلہ اور حامد میکر نے اپنا مؤقف بیان کیا تھا۔ اسی سماعت میں سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نے گٹر باغیچہ سے متعلق رپورٹ بھی پیش کی تھی۔ معلوم ہوا ہے کہ 3 مارچ 2018ء کو سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس فیصل کمال عالم پر مشتمل سنگل بینچ کے روبرو سیکریٹری لوکل گورنمنٹ رمضان اعوان کی جانب سے ان کے اسسٹنٹ آفیسر شرافت علی پیش ہوئے اور اپنی رپورٹ جمع کروائی، جس میں عدالت عالیہ کو بتایا گیا کہ گٹر باغیچہ انگریز دور کا پارک ہے، جسے تاریخی حیثیت حاصل ہے۔ پارک کی بڑی اراضی 11 مارچ 1993ء کوسوسائٹی کے نام الاٹ کی گئی، جو 200 ایکڑ پر مشتمل تھی، جسے غیر قانونی اور خفیہ طور پر کے ایم سی آفیسرز ہائوسنگ سوسائٹی کے نام پر 10 روپے فی گز کے حساب سے90 سال کیلئے الاٹ کیا گیا۔ بعد ازاں سندھ حکومت نے اینٹی کرپشن حکام کے ذریعے تحقیقات کروائی اور ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی نے چیف سیکریٹری سندھ کی منظوری سے مذکورہ الاٹمنٹ کو منسوخ کردیا تھا۔ عدالت عالیہ کو مزید بتایا گیا کہ الاٹمنٹ میں ملوث دونوں اطراف بااثر مافیا تھی، جس نے اپنے راستے سے مدعی مقدمہ نثار بلوچ کی ٹارگٹ کلنگ بھی کروائی۔ سیکریٹری لوکل گورنمنٹ رمضان اعوان کی جانب سے ان کے اسسٹنٹ شرافت نے مزید کہا کہ گٹر باغیچہ میں مذکورہ 200 ایکڑ اراضی کے علاوہ بھی چائنا کٹنگ کرکے آبادی قائم کی گئی۔ جبکہ سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ کی کراچی کے پارکس میں تجاوزات کے خلاف ایک آئینی درخواست پر سپریم کورٹ نے تجاوزات مسمار کرنے کا حکم دیا، جس کے بعد میونسپل کمشنر کراچی اور ڈپٹی کمشنر ویسٹ کو عدالتی حکم پر عمل درآمد کیلئے تحریری ہدایت جاری کی گئیں، لیکن تاحال عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔ سماعت کے موقع پر درخواست گزاروں کی جانب سے ان کے وکیل بیرسٹر نعیم نے عدالت عالیہ کو بتایاکہ گٹر باغیچہ رفاہی پلاٹ ہے، جو تاریخی حیثیت رکھنے کی وجہ سے منفرد اہمیت بھی رکھتا ہے۔ جبکہ رفاہی پلاٹ کوئی بھی ہو یا کہیں بھی ہو، قانون میں ایسی کوئی گنجائش موجود نہیں کہ رفاہی پلاٹ کو کمرشل یا رہائشی سمیت کسی بھی دوسرے مقصد کیلئے استعمال کیا جاسکے۔ عدالت عالیہ نے مقدمے کی سماعت ملتوی کردی۔ قبل ازیں درخواست گزار ارد شیر کائوس جی، رولینڈ ڈی سوزا، سماجی تنظیم شہری، بلوچ پروموٹو ویلفئرسوسائٹی، انجمن فلاح بہبود قدیم محلہ، حامد میکر نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی، کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ایم سی آفیسرزکو آپریٹوہائوسنگ سوسائٹی لمیٹڈ، سندھ حکومت کے ڈیپارٹمنٹ آف لوکل گورنمنٹ اور سندھ انوائرمنٹ آف پروٹیکشن ایجنسی کو فریق بناتے ہوئے موقف اختیارکیا کہ گٹر باغیچہ کراچی کے شہریوں کیلئے ایک بہترین تفریح گاہ ہے، جو قیام پاکستان سے قبل بھی اپنا وجود رکھتا تھا۔ اس اعتبار سے گٹر باغیچہ ایک تاریخی پارک ہے، جو کراچی کے ماسٹر پلان نقشے میں بھی ایک مکمل رفاہی پلاٹ قرار پایا ہے۔ لہذا عدالت عالیہ سے استدعا ہے کہ گٹر باغیچہ میں ہونے والی تعمیرات کے خلاف متعلقہ حکام سے جواب طلبی کی جائے اور گٹر باغیچہ کی اصل حالت میں بحالی کا حکم دے کر شہریوں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ چونکہ گٹر باغیچہ کے ایم سی کی ملکیتی اراضی ہے، لہذا اس پر قائم ہر قسم کی تجاوزات ختم کرنے کی ذمہ داری میئر کراچی وسیم اختر، ڈائریکٹر اینٹی انکروچمنٹ بشیر صدیقی اور ان کی ٹیم پر عائد ہوتی ہے۔ لیکن ان کی جانب سے اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
’’امت‘‘ کو تحقیقات کے دوران ایک شہری محمد طاہر کی جانب سے دی گئی درخواست کی نقل بھی موصول ہوئی، جو وزیر بلدیات سعید غنی کو لکھی گئی تھی۔
اس درخواست میں گٹر باغیچہ پر قبضے کے حوالے سے آگاہ کیا گیا تھا۔ شہری نے درخواست 9 ستمبر 2018ء کو لکھی، جس میں بتایا گیا کہ گٹر باغیچہ پارک کی زمین پر چائنا کٹنگ گروپ نے تبدیلی کے دعویداروں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے ایک بار پھر قبضہ و غیر قانونی تعمیرات کا کام شروع کر دیا ہے۔ ضلع ویسٹ کی انتظامیہ، پولیس، ڈی ایم سی اور کے ایم سی کے حکام خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ اور لوکل گورنمنٹ سندھ نے گٹر باغیچہ پارک میں قائم ناجائز تعمیرات مسمار کرنے کے واضع احکامات دیئے ہیں، لیکن ان احکامات پر عملدرآمد کے بجائے مزید قبضہ و تعمیرات کا کام شروع کردیا گیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا کہ ناجائز تعمیرات والے علاقے میں کے الیکٹرک کی جانب سے پول لگا کر کنکشن دینے کا عمل بھی دھڑلے سے جاری ہے۔ چائنا کٹنگ گروپ اور پاکستان میں نئی تبدیلی کے دعویدار ایک ہوگئے ہیں اور حکومت سندھ کی رٹ کو کھل کر چیلنج کر رہے ہیں۔ درخواست میں مطالبہ کیا گیا کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں گٹر باغیچہ پارک میں چائنا کٹنگ گروپ کے ناجائز قبضے و غیر قانونی تعمیرات کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے اور حکومت سندھ کی رٹ کو بحال کیا جائے۔ مذکورہ درخواست پر سعید غنی نے 3 بار نوٹ تحریر کئے، لیکن کے ایم سی کے افسران نے مذکورہ احکامات ہوا میں اڑا دیئے۔
دوسری جانب تحقیقات کے دوران معلوم ہوا ہے کہ اینٹی انکروچمنٹ کے عملے کی جانب سے جانبداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے محض پشتونوں کو قبضہ ختم کرنے کے نوٹس جاری کئے گئے، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’آپ کو نوٹس ہذا کے ذریعے اطلاع دی جاتی ہے کہ آپ نے سرکاری زمین پر قبضہ کرکے کچی پکی تعمیرات ناجائز تجاوزات کی صورت میں کھڑی کر رکھی ہیں، لہذا اس نوٹس کے ملتے ہی تین یوم کے اندر اپنی تجاوزات ہٹادیں، بصورت دیگر سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء کی دفعہ 132 شیڈول وی حصہ دوئم شق 17 کے تحت حاصل کردہ اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی، جس کی تمام تر ذمہ داری از خود تجاوزات قائم کرنے والے پر عائد ہوگی، مذکورہ کارروائی عمل میں لاتے ہوئے تجاوزات کو منہدم کر دیا جائے اور تمام سامان بحق سرکاری ضبط کرلیا جائے گا، ساتھ ہی جرمانہ یا دونوں سزائیں بھی ہوسکتی ہیں۔ تمام کاروباری حضرات کو بذریعہ نوٹس ہذا مطلع کیا جاتا ہے کہ رہائشی دکانوں اور کاروباری مراکز کے باہر سروس روڈ اور فٹ پاتھ وغیرہ پر قائم تمام تر ناجائز تجاوزات ٹھیلے، پتھارے، گاڑیاں ڈینٹر، پینٹر، مکینک، شورم، مرغی اور پرندوں کے پنجرے، فرنیچر، گنے کی مشین، گیٹ، جالیاں، جھونپڑیاں، ہوٹل، خوانچے، کیبن اور تمام ہیوی مشینری جو کہ روڈ اور گلیوں میں کھڑی ہے، سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013ء دفعہ 132 شیڈول وی حصہ دوئم آئٹم 17 کے تحت جرم کے زمرے میں شامل ہوگا‘‘۔ ذرائع نے بتا یا کہ یہ نوٹس ان 400 غیر قانونی الاٹیز کو جاری نہیں کیا گیا، جنہوں نے کے ایم سی کی اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے۔
مزید تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ شہری طاہر کی جانب سے مذکورہ قبضے سے متعلق نیب سندھ کو شکایت کی گئی تھی، جس پر ڈی جی نیب نے ایکشن بھی لیا اور متعلقہ دستاویزات بھی شکایت کنندہ سے وصول کر کے اسے کیس کا حصہ بنا لیا ہے۔ نیب حکام کی جانب سے شہری کو بھیجے گئے خط میں کہا گیا کہ مذکورہ شکایات پر نیب نے تحقیقات شروع کر نے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر انویسٹی گیشن صبا عامر گوندل کو تعینات کیا گیا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نیب حکام نے شکایت کنندہ شہری سے کیس کی تمام تر تفصیلات حاصل کرنے کے بعد تحقیقات شروع کردی ہے۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ نیب کے تفتیش کارروں نے کے ایم سی کے ایک افسر سے اس سلسلے میں پوچھ گچھ بھی کی ہے اور حاصل دستاویزات میں غیرقانونی طور پر کی جانے والی رد و بدل کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ ذرائع کے بقول اپریل سے اب تک اس انکوائری میں مزید کوئی اہم پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ ’’امت‘‘ نے اس معاملے پر شکایت کنندہ طاہر سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ ’’ڈی جی نیب سندھ سے گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں پیش رفت نہ ہونے سے متعلق شکایت کی تو انہوں نے تفتیش کاروں کو بلاکر ان کی سرزنش کی اور یقین دلایا ہے کہ وہ گٹر باغیچہ میں قبضہ کے ذمہ داروں کے خلاف ہر صورت کارروائی کریں گے۔ ہمیں عدلیہ اور نیب پر مکمل اعتماد ہے۔ اور عنقریب گٹر باغیچہ کی 1016 ایکڑ اراضی واگزار کرالی جائے گی۔
٭٭٭٭٭