علامہ خادم رضوی کی مسجد میں چھ دن سے نماز نہیں ہوئی

نجم الحسن عارف/ امت رپورٹ
علامہ خادم حسین رضوی کی مسجد میں چھ دن سے اذان اور نماز نہیں ہو رہی ہے۔ پولیس اور رینجرز کی جانب سے لاہور کی یثرب کالونی میں واقع علامہ خادم رضوی کے گھر اور مسجد رحمت اللعالمین کا محاصرہ جاری ہے۔ مسجد سیل ہونے کی وجہ سے آج ہمیشہ کی طرح ہزاروں افراد اس مسجد میں نماز جمعہ بھی ادا نہیں کر سکیں گے۔ سیکورٹی اداروں نے مسجد اور مدرسے کا کنٹرول اپنے پاس رکھتے ہوئے عملاً جامع مسجد رحمۃ اللعالمین کو سربمہر کر رکھا ہے۔ رینجرز اور پولیس کے مسلح اہلکار مسجد کے دروازے اور اردگرد تعینات ہیں۔ مقامی نمبردار مہر جاوید کے بقول مسجد کے اندر بھی سیکورٹی اہلکار مقیم ہیں۔ پولیس کی ترجمان انیلہ غضنفر کے بقول ابھی تک آپریشن جاری ہے اور سینکڑوں گرفتار ہو چکے ہیں۔ جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ جمعہ کی رات عشا کے بعد جب تحریک لبیک کی قیادت، کارکنوں اور حامیوں کے خلاف کریک ڈائون شروع کیا گیا تھا، اس کے بعد سے مسجد میں عام لوگوں کا داخلہ سیکورٹی اداروں نے بند کر رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے سیکورٹی اداروں کو خطرہ ہے کہ اس مسجد اور مدرسے میں تحریک لبیک کے کارکنوں کی آمدورفت پھر شروع ہو سکتی ہے۔ اس لئے عام لوگوں کو بھی مسجد کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے کہ وہ مسجد کے اندر پہنچ کر احتجاج کا سلسلہ شروع نہ کر دیں۔ دوسری جانب مسجد رحمت اللعالمین میں پابندی سے نمازیں پڑھنے والے سینکڑوں شہریوں میں سخت خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور انہوں نے سیکورٹی اہلکاروں سے مسجد کے اندر جانے کیلئے الجھنے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی ہے۔ مسجد کے ساتھ بازار میں دکانوں کی بڑی تعداد بھی جمعرات کے روز بند نظر آئی۔ چند کھلی دکانوں کے مالکان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو میں تصدیق کی کہ اب اس مسجد میں اذان ہوتی ہے نہ نماز۔ اذان کی آواز ہفتہ کے روز نماز فجر سے سنائی نہیں دی۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ اس مسجد اور مدرسہ کی بالائی منزل پر علامہ خادم حسین رضوی کی رہائش ہے اور وہ طویل عرصے سے یہاں نماز جمعہ کا خطبہ دے رہے ہیں۔ علامہ خادم حسین رضوی کی فیملی اب بھی اپنی رہائش گاہ میں موجود ہے۔ لیکن انہیں باہر آنے کی اجازت ہے اور نہ کسی کو ان سے ملنے کی اجازت دی جارہی ہے۔ ایک اور دکاندار نے کہا کہ معلوم نہیں علاقے کے لوگوں کو اس مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت کب تک ملے گی۔ تاہم علامہ خادم رضوی کی رہائی سے پہلے یہ ممکن نہ ہوگا۔ پورے محلے کے لوگوں میں ایک سراسمیگی کی فضا دیکھنے میں آئی۔ علاقے کے نمبردار مہر جاوید نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ محلے کے کئی لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اس لئے نہ کوئی مسجد میں اذان دینے جا رہا ہے نہ نماز پڑھنے۔ لیکن امید ہے کہ جمعہ کی نماز سے نہیں روکا جائے گا۔ ایک دکاندار نے کہا کہ دعا کریں، جمعہ کا دن خیریت سے گزر جائے۔ گرفتاریوں پر کوئی ردعمل نہ ہو جائے۔ واضح رہے کہ علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے سینکڑوں ساتھیوں کی گرفتاری کے بعد آج پہلا جمعہ ہوگا۔ ذرائع کے بقول گرفتاریوں پر ردعمل روکنے کیلئے سیکورٹی اداروں کی جانب سے پورے ملک میں مساجد اور مدارس کے باہر بالعموم اور بریلوی مکتبہ فکر کی مساجد و مدارس کے باہر بالخصوص سیکورٹی کا غیر معمولی انتظام کیا جائے گا۔
’’امت‘‘ کو حکومت سے جڑے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ حکومت نے ایک پالیسی کے تحت عقیدہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس شان رسالت کیلئے احتجاجوں کی بھرپور حوصلہ شکنی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حکومت نہیں چاہتی کہ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالت کے قانون کے حوالے سے بیرونی دنیا سے اس کو بار بار شکایات سننا پڑیں۔ اسی لئے تحریک لبیک کے خلاف سخت ترین کریک ڈائون شروع کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اس معاملے میں حکومت کو ریاستی اداروں اور الیکٹرانک میڈیا کی تائید و حمایت بھی حاصل ہے۔ میڈیا اور اپوزیشن کی بڑی جماعتوں کے بھرپور تعاون کے بعد حکومت کو یہ کریک ڈائون کئی ہفتوں تک جاری رکھنے کا موقع میسر آگیا ہے۔ ذرائع کے بقول ملعونہ آسیہ کو بحفاظت بیرون ملک روانہ کرنے تک گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رکھا جائے گا۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ضرورت پڑی تو علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے اہم ساتھیوں کی حراست کی مدت میں توسیع بھی کی جاتی رہے گی۔ زیر حراست افراد میں سے بہت سوں کو انسداد دہشت گردی ایکٹ کی زد میں لیا جائے گا۔ ایک ذریعے نے یہاں تک دعویٰ کیا کہ گرفتار لوگوں میں ایسی بھی بہت بڑی تعداد ہوگی، جن سے املاک کو نقصان پہنچنے کی پہلی مرتبہ ’’ریکوری‘‘ بھی کی جائے گی۔ ذرائع کے بقول حکومت کا اصل ہدف اگلے پانچ برسوں میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والی سرگرمیوں کو محدود کرنا ہے، تاکہ دنیا کے سامنے پاکستان کا ایک لبرل اور سیکولر چہرہ پیش کرنے میں حکومت کو سہولت رہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت اور اس کے ماتحت ادارے پوری طرح ایک صفحے پر ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (ق) سمیت دائیں بازو کی حامی بڑی جماعتیں بھی حکومت کا پورا ساتھ دے رہی ہیں۔
ادھر تحریک لبیک کے روپوش قائدین اور متحرک کارکنوں کی گرفتاری کیلئے پولیس اور انتظامیہ اب بھی سرگرم ہے۔ مخبروں کی مدد سے ڈاکٹر شفیق امینی سمیت دیگر قائدین تک پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ آسیہ ملعونہ کو بیرون ملک بھیجنے سے قبل تحریک لبیک کی پوری قیادت کو گرفتار کرکے اس جماعت کو مفلوج کیا جاسکے۔ ذرائع کے بقول اسی صورت میں آسیہ ملعونہ کو بیرون ملک بھجوانے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اور کسی احتجاج کا خدشہ بھی نہیں رہے گا۔ ذرائع کے مطابق روپوش قائدین میں پیر افضل قادری کے بیٹے اور عزیز بھی شامل ہیں، انہوں نے اپنے موبائل فون آف کردیئے ہیں اور کسی سے رابطے میں نہیں ہیں۔ ان کے وکلا کو ان سے وکالت نامہ پر دستخط کرانے میں مشکلات ہیں۔ جبکہ عدالتوں کے رویے پر بھی تحریک لبیک شاکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب ٹی پی ایل کی گراؤنڈ پر موجود قیادت نے عدالتوں سے رجوع نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’امت‘‘ سے گفگو میں تحریک لبیک کے رہنما سید ظفر حسین گیلانی نے بتایا کہ انہوں نے یہ فیصلہ بعض قائدین کی مشاورت سے کیا ہے، کیونکہ انہیں عدالتوں سے ریلیف ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ چیف جسٹس، آسیہ ملعونہ کے بارے میں برطانیہ میں بعض ایسے بیانات دے چکے ہیں، جو آئیں اور قانون سے متجاوز ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیفنس آف پاکستان کے سربراہ حافظ احتشام احمد نے چیف جسٹس کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں رٹ دائر کر دی ہے، جس کی جلد سماعت شروع ہونے کا امکان ہے۔ سید ظفر حسین گیلانی کا کہنا تھا کہ ’’ہماری جماعت کے خلاف کریک ڈاؤن خلاف غیر قانونی ہے، اگر کسی نے جرم کیا ہے تو سامنے لایا جائے۔ تحفظ ناموس رسالت کیلئے آواز بلند کرنا اگر جرم ہے تو پھر پاکستان کا ہر مسلمان شہری مجرم ہے، سب کیخلاف کارروائی کریں‘‘۔
ذرائع کے مطابق انتظامیہ اور پولیس کے ساتھ دیگر اداروں کی جانب سے بھی تحریک لبیک کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے اور اس کی رجسٹریشن ختم کرنے کیلئے بھی گرائونڈ تیار کیا جارہا ہے۔ جمعرات 29 نومبر کو الیکشن کمیشن نے تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی کو پارٹی رجسٹریشن و فنڈنگ کیس میں طلب کر رکھا تھا۔ تاہم وہ پولیس حراست میں ہونے کی وجہ سے پیش نہیں ہوئے۔ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) سردار رضا خان کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے اب خادم حسین رضوی کو پانچ دسمبر کو طلب کیا ہے اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر لاہور کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس طلبی نوٹس کی علامہ خادم رضوی سے تعمیل کرائیں۔ ذرائع کے بقول تحریک لبیک کی قیادت گرفتار ہے یا روپوش، ان حالات میں فی الحال الیکشن کمیشن کے سامنے کسی رہنما کے پیش ہونے کا امکان کم ہے۔ آج نماز جمعہ کے اجتماعات میں تحریک لبیک سے وابستہ مساجد میں گرفتاریوں کے خلاف مذمتی قراردادیں تو منظور کرائی جائیں گی، لیکن مساجد کے باہر مظاہروں کا فی الحال کوئی پروگرام نہیں ہے کیونکہ قیادت مزید کارکنوں کو گرفتار کرانے کے حق میں نہیں ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی کے استاد شیخ الحدیث علامہ عبدالستار سعیدی سے گزشتہ روز ایک بیان منسوب ہوا تھا کہ انہوں نے آج جمعہ کو احتجاج کرنے کی کال دی ہے۔ جمعرات کو ’’امت‘‘ نے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے ایسے کسی بیان کی تردید کی اور کہا کہ… ’’تحفظ ناموس رسالت کیلئے تحریک لبیک پاکستان کا پلیٹ فارم ہی استعمال ہوسکتا ہے۔ ہماری ہمدردیاں اور دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ لیکن میں تو چار دیواری کے اندر کا آدمی ہوں، میں نے ایسا کوئی بیان نہیں دیا‘‘۔ ایک سوال کے جواب میں علامہ عبدالستار سعیدی نے بتایا کہ ’’علامہ خادم حسین رضوی میرے شاگرد ہیں اور آٹھ سال میرے پاس جامعہ نظامیہ میں پڑھتے رہے ہیں۔ مجھے ان سے اور دیگر تمام گرفتار افراد سے ہمدردی ہے، لیکن کب احتجاج کرنا ہے، اس کا فیصلہ ان کے قائم مقام امیر علامہ شفیق امینی کریں گے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ علامہ خادم رضوی کی مسجد اور گھر کا محاصرہ جاری ہے۔ 24 نومبر سے مسجد میں اذان و نماز نہیں ہورہی۔ اس مسجد میں ہر نماز میں عموماً سینکڑوں افراد نماز ادا کرتے ہیں۔ جبکہ نماز جمعہ میں نمازیوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ لیکن مسجد کے محاصرے کی وجہ سے نمازیں نہیں ہورہی ہیں، جو نبی کریمؐ کے کلمے کے نام پر بننے والے ملک میں انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ حکومت کو مسجد اور علامہ خادم رضوی کے گھر کا محاصرہ بلا تاخیر ختم کرنا چاہئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت نے لاہور میں دھرنا ختم کرانے کیلئے جو معاہدہ کیا۔ اس پر پوری طرح عمل ہونا چاہئے تھا۔ تحریک لبیک کے مطالبات سیاسی نہیں، مذہبی نوعیت کے تھے، جن کو حکومت نے تسلیم کیا۔ لیکن پھر عمل نہ کرکے جرم کیا ہے۔ علامہ عبدالستار سعیدی نے بتایا کہ جامعہ نظامیہ لاہور میں علامہ خادم حسین رضوی کا شمار محنتی اور اساتذہ کا احترام کرنے والے طالب علموں میں ہوتا تھا۔ لیکن وہ عملی زندگی میں اتنے نمایاں ہوں گے، اس وقت اندازہ نہیں تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment