امت رپورٹ
دریائے راوی کے کنارے آباد قصبہ ساندہ میں تھوڑا اندر کی طرف جائیں تو وسط میں لاہور کا معروف حکیماں والا بازار آ جاتا ہے۔ اس بازار میں ایک چھوٹے سے کیبن پر ڈھلتی عمر کا ایک یوسف نامی شخص خواتین کے پراندے، بنیان اور ہوزری کا دیگر سامان فروخت کیا کرتا تھا۔ بازار سے ملحق محلے میں اس کا چھوٹا سا مکان تھا۔ محدود آمدن کے باعث بڑی مشکل سے گزر بسر ہوتا تھا۔ تاہم آج بھی سارا علاقہ شریف النفس یوسف کی ایمانداری کی قسمیں کھاتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے دونوں بیٹے اپنے باپ کی شخصیت کی ضد تھے۔ بالخصوص بڑے بیٹے نے اودھم مچا رکھا تھا۔ آئے دن کے لفڑے اور فنٹر گیری اس کا شوق تھا۔ نتیجتاً ایک دن قتل ہو گیا۔ چھوٹے بھائی کی اگرچہ حمزہ شہباز سے دوستی تھی، لیکن ان دنوں چونکہ خود شریف فیملی ڈکٹیٹر مشرف کے زیر عتاب تھی اور اس کے بیشتر ارکان جلا وطن تھے، لہٰذا حمزہ شہباز اپنے دوست کی صرف اتنی مدد کر سکا کہ پرنٹ میڈیا میں واقف اپنے چند صحافیوں کے ذریعے اس کے بھائی کے قتل کی خبر دو تین اخبارات میں شائع کرا دی۔ یہ 2002ء کے اوائل کی بات ہے، جب پرائیویٹ ٹی وی چینلز کا دور ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔
یوسف کا چھوٹا بیٹا اور حمزہ شہباز کا یہ قریبی دوست علی عمران تھا، جو بعد میں شہباز شریف کا داماد بنا۔ اب نیب کو اربوں روپے کی کرپشن میں مطلوب اور اشتہاری قرار دیا جا چکا ہے۔ حمزہ شہباز سے علی عمران کی دوستی 99ء میں نواز حکومت کا تختہ الٹے جانے سے چند برس پہلے ہوئی تھی۔ اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی چلی گئی۔ بالخصوص 2000ء میں جب مشرف نے شریف فیملی کے 18 سرکردہ ارکان کو زبردستی جلا وطن کیا اور حمزہ شہباز کو بطور ضمانت پاکستان میں رکھا گیا تو یہ دوستی مزید مضبوط ہوگئی۔ دونوں کا بیشتر وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزرتا تھا۔ بہت سے لوگوں کے لئے یہ بات باعث حیرت ہوگی کہ شریف فیملی کی جلا وطنی کے دور میں چار دوستوں کا جو ٹولہ مشہور تھا، ان میں حمزہ شہباز اور علی عمران کے علاوہ چوہدری شجاعت کا بیٹا سالک اور چوہدری پرویز الٰہی کا صاحبزادہ مونس الٰہی شامل تھے۔ حال ہی میں ضمنی الیکشن لڑ کر چوہدری سالک حسین اور چوہدری مونس الٰہی دونوں رکن قومی اسمبلی بن چکے ہیں۔ اگرچہ مشرف حکومت نے صرف حمزہ شہباز کو ہی پاکستان میں رہنے کی اجازت دے رکھی تھی، لیکن ان کے چھوٹے بھائی سلیمان شہباز کا بھی بیشتر وقت پاکستان میں گزرتا تھا۔ تاہم سلیمان شہباز کا لندن آنا جانا لگا رہتا۔ واقفان حال کے بقول دونوں بھائیوں کو ملنے والی یہ رعایت چوہدری برادران کی مرہون منت تھی۔ شریف فیملی کے جلا وطنی کے دنوں میں بالخصوص چوہدری پرویز الٰہی نے حمزہ اور سلیمان کو پھولوں کی طرح رکھا اور دونوں پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔ بہت سے لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔ اپنے بڑوں کی غیر موجودگی میں پاکستان میں شریف فیملی کا سارا کاروبار حمزہ ہی دیکھا کرتے تھے۔ آج جب پنجاب اسمبلی کے باہر مجمع لگا کر حمزہ شہباز اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی پر تنقید کے تیر چلاتے ہیں تو بہت سے واقف کار زیر لب مسکرا دیتے ہیں۔
حمزہ شہباز اور علی عمران کی باہمی دوستی آگے چل کر رشتہ داری میں تبدیل ہو گئی۔ شہباز شریف اور ان کی اہلیہ نصرت بھی علی عمران کو پسند کرتے تھے۔ کیونکہ علی عمران اگر اپنے والد کی شخصیت کا عکس نہیں تھا تو اپنے مقتول بھائی کی طرح لفڑے باز بھی نہیں تھا۔ جب رشتے کی یہ بات چل رہی تھی تو درمیان میں ایک شخصیت اور بھی آئی۔ یہ نہایت وجیہ اور کڑیل جوان جمیل صادق تھا۔ جو ہاکی کا بہترین کھلاڑی اور پاکستان وائٹ ہاکی کی طرف سے کھیلتا تھا۔ یہ بھی حمزہ کا قریبی دوست تھا۔ لیکن کرمنل فیملی بیک گرائونڈ نے معاملہ بننے نہ دیا۔ مالی پورہ کے رہائشی جمیل صادق کے والد دو مرتبہ جیل کاٹ چکے تھے۔ ایک سگا بھائی اس وقت بھی برطانیہ میں جیل کاٹ رہا ہے۔ جمیل صادق کے دو ماموئوں کا شمار 80ء کی دہائی میں لاہور کے نامور بدمعاشوں میں ہوتا تھا۔ حنیفاں، بابا کے نام سے مشہور تھے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس دور کے بڑے بڑے پولیس افسر ان دونوں بھائیوں کا نام سن کر گھبرا جایا کرتے تھے۔
قصہ مختصر حمزہ شہباز سے جمیل صادق کی دوستی صرف دوستی تک محدود رہی۔ اس دوران علی عمران کے گھر والے اور شریف فیملی آپس میں رشتہ داری قائم کرنے پر متفق ہو چکے تھے۔ مسئلہ یہ تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف سمیت شریف خاندان کے تمام بڑے سعودی عرب میں جلا وطنی کاٹ رہے تھے اور انہیں پاکستان آنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس موقع پر بھی چوہدری برادران کی شفقت کام آئی۔ جنہوں نے شادی کی تقریب کے لئے شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز اور دونوں بیٹیوں جویریہ اور رابعہ کو نہ صرف پاکستان آنے کی اجازت دلائی، بلکہ لاہور میں دو ماہ تک قیام بھی کرایا۔ تینوں کو لاہور ایئرپورٹ پر ریسیو کرنے حمزہ اور سلیمان گئے تھے۔ سن تھا 2004ء اور مہینہ ستمبر۔ کچھ روز بعد شہباز شریف کی چھوٹی صاحبزادی رابعہ کی علی عمران یوسف سے شادی ہو گئی۔ تقریب بڑی سادہ تھی۔ کیونکہ مشرف حکومت کی خواہش تھی کہ ایونٹ سیاسی نہ بننے پائے۔
غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے علی عمران یوسف کا 2008ء تک مالی بدعنوانیوں کے حوالے سے کہیں نام نہیں آیا تھا۔ تاہم اسی برس شہباز شریف نے جب دوسری بار وزارت اعلیٰ پنجاب کا قلمدان سنبھالا تو اندرون خانہ چند معاملات شروع ہو چکے تھے۔ لیکن لوئر فائل میں رہنے کے سبب علی عمران یوسف کو زیادہ لوگ جانتے نہیں تھے اور وہ خود بھی میڈیا سے دور رہتا تھا۔ رواں برس اپریل میں پنجاب صاف پانی کمیشن اور پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کارپوریشن میں اربوں روپے کی بدعنوانی سے متعلق دو مقدمات میں نیب کی طرف سے بلائے جانے تک علی عمران کا نام بہت کم لوگوںکو معلوم تھا۔ اس سے قبل وہ پہلی بار اس وقت میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا جب 2013ء میں لاہور کی ایک بیکری ملازم پر تشدد کیس میں اسے گرفتار کیا گیا۔ گرفتاری کا یہ حکم اس کے سسر اور اس وقت وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے خود دیا تھا، کیونکہ یہ معاملہ میڈیا میں بہت ہائی لائٹ ہو چکا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد لاہور کی ایک مقامی عدالت نے علی عمران کو بری کر دیا۔
شریف فیملی کے قریب رہنے والے ذرائع بتاتے ہیں کہ اگرچہ رمضان شوگر ملز کے معاملات حمزہ اور سلیمان شہباز دیکھا کرتے تھے۔ تاہم 2008ء میں شوگر ملز عملاً علی عمران کے حوالے کر دی گئی تھی۔ یہ وہی شوگر ملز ہے، جس کے بارے میں کچھ عرصہ پہلے میڈیا میں یہ خبریں چلتی رہیں کہ وہاں بڑی تعداد میں بھارتی انجینئر اور دیگر اسٹاف کام کرتا ہے۔ ان ذرائع کے مطابق علی عمران یوسف کو اصل فری ہینڈ 2013ء میں ملا، جب نون لیگ مرکز اور پنجاب دونوں جگہ پر اقتدار میں آئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے علی عمران یوسف اربوں کی جائیداد کا مالک بن گیا۔ محض چند برسوں میں بنائی جانے والی اس جائیداد اور اثاثوں کی مالیت دیکھ کر آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ جس میں ایم ایم عالم روڈ پر واقع کروڑوں روپے مالیت کا معروف علی پلازہ شامل ہے۔ اس پلازہ میں 67 دکانیں اور درجنوں دفاتر ہیں۔ جن کا ہر ماہ صرف کرایہ تین سے چار کروڑ روپے آتا ہے۔ پلازہ کے لئے حاصل کی گئی اراضی کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ وہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی تھی۔ تاہم یہ معاملہ زیر تفتیش ہے۔ علی عمران، علی سنٹر اور علی ٹائون کا مالک بھی ہے۔ جبکہ علی اینڈ فاطمہ ڈویلپرز اور غوث اعظم ڈویلپرز کے نام سے کنسٹرکشن کا کاروبار بھی چلا رہا تھا۔ نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے احتساب عدالت میں بیان کردہ اعداد و شمار کے مطابق گلبرگ لاہور میں 100 قیمتی پلاٹ بھی علی عمران یوسف کی ملکیت ہیں۔ وہاں اپنے زیر ملکیتی ایک پلازہ کا ایک پورا فلور اس نے پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کارپوریشن کو پونے تین کروڑ روپے ماہانہ کرائے پر دے رکھا تھا۔ چند روز پہلے احتساب عدالت میں نیب کی جانب سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ مدینہ فوڈز پروسیڈ کے ایک کروڑ 75 لاکھ شیئرز میں سے ایک کروڑ 25 لاکھ شیئرز علی عمران کے ہیں۔ اسی طرح ڈی ایچ اے لاہور میں دو کینال کا ایک رہائشی پلاٹ علی عمران کی ملکیت ہے۔ اس کے علاوہ علی فوڈ پروسیڈ ڈویلپرز میں 50 لاکھ شیئرز ہیں، جس میں علی عمران اور اس کی اہلیہ رابعہ برابر کے حق دار ہیں۔ اب تک دریافت ہونے والی علی عمران کی اس تمام جائیداد کو عدالت ضبط کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ اور بیشتر اکائونٹ بھی منجمد کر دیئے گئے ہیں۔ اس میں وہ اکائونٹ شامل ہے، جس کے بارے میں پنجاب پاور ڈویلپمنٹ کارپوریشن کے گرفتار سابق سربراہ اکرام نوید نے اعتراف کیا ہے کہ اس نے پاور کمپنی کے 12 کروڑ روپے علی عمران کے ذاتی بینک اکائونٹ میں جمع کرائے تھے۔
علی عمران کو عدالت اشتہاری قرار دے چکی ہے۔ 25 جولائی کے عام انتخابات سے پہلے وہ اپریل میں صرف ایک بار تفتیش کے لئے نیب کے سامنے پیش ہوا، جب نون لیگ برسر اقتدار تھی۔ اس پیشی کے فوری بعد وہ لندن فرار ہو گیا تھا۔ جہاں آج کل حسن نواز، حسین نواز اور سلیمان شریف بھی موجود ہیں۔ ان تینوں کو بھی مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ شریف فیملی کے دیگر ارکان کے مقابلے میں علی عمران کے خلاف بدعنوانی کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، لہٰذا پاکستان واپسی پر اسے سزا ہونے کے قوی امکانات موجود ہیں۔ نیب علی عمران کو ریڈ وارنٹ جاری کر کے انٹرپول کے ذریعے واپس لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ لیکن تاحال اس میں کوئی واضح پیش رفت ہونے کی اطلاعات نہیں۔
لاہور میں موجود ذرائع نے بتایا کہ پچھلے چند برسوں میں علی عمران نے جو بھی ’’کارنامے‘‘ کئے۔ اس کے لئے اس نے اپنے بچپن کے دوست اور ان کائونٹر اسپیشلسٹ کے طور پر معروف ایک پولیس افسر کو اپنے مددگار کے طور پر استعمال کیا۔ یہ پولیس افسر سی آئی اے لاہور کا انچارج اور ایس ایچ او بھی رہ چکا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے نون لیگی دور میں علی عمران نے اپنے اس پولیس افسر دوست کو شولڈر پروموشن دلا کر ڈی ایس پی بنا دیا تھا۔ تاہم عدالتی احکامات کے بعد یہ ترقی واپس لینا پڑی۔ آج کل علی عمران کا یہ دوست اینٹی کرپشن یونٹ میں ہے۔ ضبط ہونے والی جائیداد کا کیئر ٹیکر بھی وہی تھا۔
٭٭٭٭٭