مسلمانوں کا ایک دور تھا جب علم دین ان کی پہلی اور آخری خواہش ہوا کرتی تھی۔ انہی لوگوں میں فن ادب کے مشہور امام، امام کسائیؒ بھی شمار کئے جاتے تھے، ان کی علمی حمیت بڑی تیز اور حساس تھی، جس کو جوش میں لانے کیلئے ایک چھوٹی اور ادنیٰ سی تحریک ہی کافی ہوگئی تھی۔
ہوا یوںکہ ایک مرتبہ حسب معمول یہ مجلس علم میں تشریف لے گئے، تو راستے کی طوالت اور صعوبت سے تھک چکے تھے، چہرے پر اس کے آثار ہویدا تھے، اپنی طبعی شکستگی اور خستگی ظاہر کرنے کیلئے انہوں نے ’’عییت‘‘ کا لفظ ادا کیا، جس سے مراد یہ تھی ’’میں تھک گیا ہوں‘‘
مجلس علم و ادب کی تھی، ذوق سلیم پر ان کا یہ لفظ گراں گزرا اور مجلس میں بعض اہل علم نے امام کو غلطی پر ٹوکا اور کہا کہ تم غلط لفظ استعمال کر رہے ہو؟ اور پھر کہنے لگے کہ اگر اس لفظ سے تمہاری مراد ’’ماندگی‘‘ ہے تو ’’عَییت‘‘ کہنا چاہئے اور اگر ’’درماندگی‘‘ کا اظہار مقصود ہو تو ’’عُییت‘‘ کہنا چاہئے۔
امام کسائیؒ کے دل میں بھری محفل میں اس اعتراض اور تخفیف نے زخم کر دیا، دل پر ایک چوٹ لگی اور ایسی چوٹ کہ فوراً اس محفل سے نکلے اور دل میں تہیہ کر لیا کہ اس فن (ادب) کو مکمل سیکھنا چاہئے کہ پھر زندگی بھر ایسی خفت کسی بھی محفل میں نہ اٹھانی پڑے۔
استاد کی تلاش میں نکلے اور لوگوں کی رہنمائی پر امام خلیل بصریؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر اس فن میں وہ محنت کی کہ مقام امامت پر جا پہنچے، لیکن شاید ان کی آزمائش مکمل نہ ہوئی تھی اور مزید آزمائشیں ان کی منتظر تھیں۔
چنانچہ انہی دنوں یہ آپ گلی سے گزر رہے تھے کہ ایک بدو نے آپ پر طعن کیا کہ تم لوگ کہاں، ادب بنو تمیم اور بنو اسد کو چھوڑ کر عربیت حاصل کرنے بصرہ آئے ہو، بھلا یہاں کتنا ادب حاصل کر سکو گے؟
یہ چبھتا ہوا فقرہ ان کے دل میں اترتا چلا گیا اور اپنے استاد خلیل بصریؒ سے انہوں نے پوچھ لیا کہ آپ نے یہ فن کہاں حاصل کیا؟
استاد نے جواب دیا حجاز، تہامہ اور نجد کے جنگلوں میں۔ بس پھر کیا تھا، کسائیؒ کے سر میں ایک نیا سودا پیدا ہوا اور تحصیل علم کی خاطر شہروں کو چھوڑ کر جنگلات کا رخ کیا اور اتنا پھرے اتنا پھرے کہ ان سے فن ادباء کا کوئی پہلو اب پوشیدہ نہ رہا، حتیٰ کہ اس فن میں بڑے امام بن گئے، جس کو نہ جاننے سے ان کو شرمندہ ہونا پڑا تھا، آج اس کے ایک ایک پہلو سے انہیں عزتیں اور نعمتیں مل رہی تھیں۔ (ارباب علم و کمال اور پیشہ رزق حلال صفحہ نمبر 160)
٭٭٭٭٭