سدھارتھ شری واستو
امریکی فوجی ساز و سامان بنانے والی کمپنی ’’لاک ہیڈ مارٹن‘‘ نے ایک ایسا جدید سائنسی لباس ایجاد کیا ہے جس کی مدد سے فوجی کسی تصوراتی ہیرو کی طرح میلوں پیدل چل سکیں گے اور پہاڑوں پر بھی سامان اٹھا کر بآسانی چڑھ جائیںگے۔ جبکہ اس الیکٹرونک لباس کو پہننے والے فوجی گھنٹوں کی مشقوں یا جنگی مصروفیات کے سبب تھک بھی نہیں پائیں گے اور 24 گھنٹوں کی بنیاد پر اپنی ڈیوٹی انجام دے سکیں گے۔ جبکہ اسلحہ و ایمونیشن کے ساتھ کسی بھی پوسٹ پر معمول سے دوگنی ڈیوٹی بھی دے سکیں گے۔ انسانی جسم اور اعضا کو طاقت فراہم کرنے والے اس فوجی لباس کی قیمت کا ابھی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے لیکن متعلقہ ماہرین اور لاک ہیڈ مارٹن کا یہ ماننا ہے کہ اس جدید اور انقلابی لباس کی قیمت پچاس ہزار سے ایک لاکھ ڈالرز کے درمیان ہوگی۔ امریکی ملٹری ادارے ’’یو ایس آرمی نیٹک سولجرز ریسرچ ڈیولپمنٹ سینٹر‘‘ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اب تک ہم نے ملٹری میں کسی بھی فوجی پر سامان اور اسلحہ و ایمونیشن کے وزن کی حد 23 کلو گرام رکھی تھی، لیکن جب فوجی کو لاک ہیڈ مارٹن کا نیا لباس ’’سُپر یونیفارم‘‘ پہنایا گیا تو اس فوجی نے بآسانی 60 کلو کا وزن اٹھا لیا، جبکہ فوجی نے زیادہ سے زیادہ وزن 100 کلو گرام بغیر کسی مشقت اور پریشانی کے اٹھایا۔ یہ الیکٹرونک لباس امریکی فوجیوں کو کسی بھی منظر نامہ میں بہترین اور ناقابل یقین کارکردگی کیلئے تیار کرتا ہے۔ ’’لاک ہیڈ مارٹن میزائل اینڈ فائر ڈپارٹمنٹ‘‘ کے ایگزو اسکیلیٹن منیجر کیتھ میکسویل نے بتایا ہے کہ بار بار چارج کرنے کے لائق بیٹری اور اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے اس جدید فوجی وردی کو’’آئرن مین‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کا کمپنی ٹرائل کامیابی سے مکمل کیا گیا ہے، جس میں فوجیوں کے ساتھ ساتھ امدادی ورکرز اور سول ڈیفنس کے حکام نے اس لباس کو بار بار چیک کیا اور ساز و سامان اٹھا کر طویل فاصلوں اور بلندیوں پر چڑھنے کا کامیاب تجربہ کرکے اس کو کلیئرنس دی ہے، جس کے بعد جلد ہی امریکی افواج کے منتخب شعبہ جات کو ابتدائی طور پر یہ لباس فراہم کیا جائے گا اور اگلے دو برسوں میں کنٹریکٹ کو مکمل کیا جائے گا۔ تاہم ابھی تک کسی بھی غیر ملکی افواج کیلئے اس لباس کی فروخت کی منظوری نہیں دی گئی ہے۔ امریکی فوجی افسران کا اس لباس کی جانچ کے دوران کہنا ہے کہ ’’سُپر یونیفارم‘‘ نے فوجیوں کو گھنٹوں اضافی جنگ جاری رکھنے کی طاقت دی ہے۔ امریکی فوجی تھینک ٹینک ’’سینٹر فار نیو امریکن اسٹڈیز‘‘ کے عسکری تجزیہ نگار پال شرر نے اس نئے لباس کے حوالہ سے بتایا ہے کہ یہ لباس انقلابی اہمیت رکھتا ہے بالخصوص پہاڑی علاقوں میں مختلف سرگرمیوں میں مصروف فوجیوں اور کمانڈوز کو یہ لباس ’’سپر مین‘‘ بنائے گا۔ اس سلسلہ میں امریکی فوجی یونٹس میں سب سے زیادہ اہم شعبہ انفینٹری اور آرٹلری کا ہے، جس سے تعلق رکھنے والے تمام فوجیوں کو اضافی اور بھاری ایمونیشن اٹھانا پڑتا ہے اس لئے لاک ہیڈ مارٹن کا تیار کردہ یہ لباس انفینٹری اور آرٹلری کو سب سے زیادہ سہولیات فراہم کرے گا۔ اس لباس کو ٹانگوں کی جانب سے پتلون کی طرح پہنا جاتا ہے جس کا خصوصی بند فوجی کی پنڈلیوں اور رانوں کو گھیرتا ہے اور اس کے بعد کمر کا گھیرائو کرتا ہے اور سینہ کے اگلے اور پشت کے حصوں اور بازوئوں سمیت کاندھوں کا احاطہ کرتے ہوئے اس کو سپورٹ کرتا ہے۔ لاک ہیڈ مارٹن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس ایگزو اسکیلیٹن کی کہنیوں کے مقام پر ’’الیکٹرو مکینکل ایکٹویٹر‘‘ نصب کئے گئے ہیں جو اس لباس کو پہننے والے فوجی کی ڈائریکشن، اسپیڈ اور وزن کی کیلکولیشن کرتے ہیں اور بیٹریز کی مدد سے طاقت فراہم کرتے ہیں جس کی وجہ مطلوبہ حصوں کو حرکت دی جاتی ہے اور ٹانگوں اور ہاتھوں کو ایسی طاقت ملتی ہے جس کی وجہ سے سامان بھی اٹھایا جاسکتا ہے اور طویل فاصلوں تک پیدل بھی چلا جاسکتا ہے۔ اس لباس کو تیار کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس میں نصب کئے جانے والے سینسرز کا اصل کام یہ ہے کہ وہ زمین کی اونچائی اور گہرائی کے تمام زاویوں کو مانیٹر کرتے ہیں اور بالخصوص ڈھلوان سطح پر انتہائی تیزی سے کیلکولیشن کرتے ہیں اور مطلوبہ پٹھوں کو بیرونی توانائی فراہم کرتے ہیں۔ لاک ہیڈ مارٹن نے اس انوکھے لباس کے بارے میں بتایا ہے کہ یہ لباس خاص طور پر فوجیوں کی ٹانگوں کے عضلات کو انتہائی مضبوطی اور طاقت فراہم کرتا ہے جس کی مدد سے فوجی اور امدادی کارکنان یا دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں کام کرنے والے افراد کیلئے کام انتہائی سہل ہوجائے گا اور ان علاقوں میں کارگزار افراد بھاری سامان بھی اٹھا کر آرام سے مطلوبہ اونچے مقامات پر پہنچ سکیںگے۔ امریکی فوجی خبروں کی اشاعت کیلئے معروف جریدے ملٹری ٹائمزنے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ امریکی حکومت نے ’’سُپر یونیفارم‘‘ کی فراہمی کیلئے لاک ہیڈ مارٹن کمپنی کو سات کروڑ ڈالرز کا ٹھیکا دیا ہے اور اس لباس کی کارکردگی کو ملاحظہ کرنے والے حکام اور افسران نے تصدیق کی ہے کہ وہ اس کی کارکردگی سے بہت زیادہ متاثر ہیں اور امریکی فوج کی بیشتر یونٹس کیلئے ’’آئرن مین لباس‘‘کی فراہمی کیلئے کام شروع کردیا گیا ہے ۔ ماہرین کی رائے میں ’’اونیکس‘‘ کہلایا جانیوالا یہ الیکٹرونک لباس اصل میں ایک ڈھانچے کی شکل میں ہے اور اس کو بیٹری سے آپریٹ کیا جاسکتا ہے۔ اس لباس میں درجنوں اقسام کے سینسرز موجود ہیں اور مصنوعی انٹیلی جنس سسٹم سے لیس ہے، جس کا رابطہ مرکزی کنٹرول روم سے بھی بآسانی کیا جاسکتا ہے۔ اس لباس میں کئی اور قسم کے ایسے سسٹمز بھی نصب کئے گئے ہیں جن سے اب تک میڈیا کو آگاہ نہیں کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ کینیڈین، چینی اور روسی فوجی کمپنیاں اور ماہرین بھی ایسے لباس کی تیاری میں مشغول ہیں لیکن لاک ہیڈ مارٹن نے اس ضمن میں سب سے پہلے اس لباس کو تیار کرنے میں سبقت لے لی ہے۔
٭٭٭٭٭