محمد قاسم
افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کیلئے کمیٹی تشکیل دینے پر کابل حکومت میں پھوٹ پڑگئی ہے۔ افغان قومی سلامتی کے سابق مشیر حنیف اتمر کا کہنا ہے کہ صدر نے کمیٹی بنا کر اپنی حکومت کو بے وقعت کر دیا ہے۔ دوسری جانب زلمے خلیل زاد اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے نئے دور کیلئے افغان طالبان نے سر جوڑ لئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق افغان صدر نے یورپی یونین اور دیگر مغربی ممالک کی جانب سے پانچ سو ملین ڈالر کے قریب امداد کو افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات سے مشروط کرنے اور مزید امداد کیلئے جنگ کے خاتمے کی شرائط کے باعث صدارتی محل کے ڈائریکٹر سلام رحیمی کی قیادت میں مختلف وزارتوں پر مشتمل بارہ رکنی مذکراتی ٹیم تشکیل دی ہے، جو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرے گی۔ یہ ٹیم مذاکرات کیلئے مختلف کمیٹیاں بھی تشکیل دے گی۔ تاہم مذکورہ کمیٹی تشکیل دینے پر افغان حکومت کے اندر اختلافات پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ کمیٹی میں شمالی اتحاد اور جنبش ملی کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ جبکہ حزب وحدت کے رہنما استاد محقق کا کہنا ہے کہ حزب اسلامی کے موقف کے علاوہ مذاکرات ممکن ہی نہیں ہیں کہ پوری افغان قوم اکٹھی ہوکر امریکا کے انخلا کا مطالبہ کرے تو پھر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ کیونکہ طالبان کا بھی سب سے بڑا مطالبہ یہی ہے۔ اس طرح کی کمیٹیاں تشکیل دینے سے کچھ نہیں ہوگا۔ افغان حکومت کے اندرونی ذرائع نے بتایا ہے کہ اختلاف اس بات پر ہے کہ افغان مصالحتی کمیشن گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کر رہا ہے اور اس کی جگہ ایک نئی کمیٹی تشکیل دینے سے مصالحتی کمیشن کا کام تقریباً ختم کر دیا گیا ہے۔ افغان صدر ایک نئی کمیٹی بنا کر پورے مذاکراتی عمل کو متنازعہ بنا رہے ہیں۔ مصالحتی کمیشن کا قیام افغان قومی جرگے نے کیا تھا، لیکن افغان صدر نے قومی جرگے کے اوپر ایک نیا جرگہ بٹھا دیا اور بارہ رکنی کمیٹی بنا دی جو مزید بارہ کمیٹیاں بنائے گی۔ ڈاکٹر اشرف غنی نے اپنے قریبی ساتھی عبدالسلام رحیمی کو اس کمیٹی کا چیئرمین بنایا ہے، جبکہ وزیر تعلیم محمد میر ویس بلخی، وزیر اطلاعات حسینہ صافی، ہائر ایجوکیشن کے وزیر مملکت عبدالتواب کرزئی، مہاجر ین کے وزیر، این ڈی ایس کے نائب چیف جنرل عباداللہ عباد، اراکین پارلیمان شاہ گل رضائی، مولوی عطاء اللہ لودین، پکتیا کے گورنر شمیم خان، سپریم کورٹ کے جج عبداللہ عطائی، وزارت خارجہ کے ڈائریکٹر توریالی غیاث اور وزارت اوقاف کے نائب وزیر مولوی عبدالحکیم منیب کو اس میں شامل کیا گیا ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کے مرکزی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان اس کمیٹی کو مسترد کرتے ہیں اور ان کے ساتھ قطعی کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے اور نہ ہی کوئی رابطہ کرے گا۔ جس طالبان رہنما نے بھی اس کمیٹی کے ساتھ رابطہ کیا، وہ اس کا جواب دہ ہو گا۔ ادھر افغان صدر کی اس کمیٹی کی تشکیل کے بعد مصالحتی کمیشن کے چیئرمین اور حزب وحدت خلیلی کے سربراہ استاد کریم خلیلی نے مستعفی ہونے پر غور شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس حوالے سے مشورہ کر رہے ہیں۔ بہت جلد مصالحتی کمیشن کا موقف سامنے آ ئے گا۔ کیونکہ افغان صدر نے مصالحتی کمیشن کے اوپر ایک نئی کمیٹی بنا کر پورے مذاکراتی عمل کو متنازعہ بنا دیا ہے۔ مصالحتی کمیشن کے اراکین سوچ رہے ہیں کہ ان کی بات کو اہمیت دی جائے گی یا افغان صدر کی تشکیل کردہ کمیٹی کو۔ دوسری جانب امریکا کی جانب سے چھ ماہ کے اندر افغانستان کے مسائل پر طالبان کے ساتھ معاہدہ کرنے کے مطالبے پر افغان طالبان نے سر جوڑ لئے ہیں۔ اس حوالے سے افغان طالبان کی ہلمند شوریٰ کے دو اجلاس ہوئے ہیں اور دونوں اجلاسوں میں بحث کے بعد اس بات پر اتفاق پایاگیا ہے کہ اگر امریکا انخلاء کا اعلان کرتا ہے تو افغان طالبان جنگ بندی کا اعلان کر دیں گے۔ تاہم تمام مسائل چھ ماہ میں ایک معاہدے کے ذریعے حل کرنا طالبان کیلئے ممکن نہیں ہے۔ کیونکہ طالبان کو اس کیلئے نہ صرف فیلڈ کمانڈروں کو راضی کرنا پڑے گا بلکہ اس حوالے سے طالبان نے جو سیاسی کمیشن بنایا ہے، اس کے کام بھی مکمل نہیں ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ ہلمند شوریٰ میں حقانی نیٹ ورک کیلئے شرکت کرنا مشکل تھا، اس لئے حقانی نیٹ ورک کے اہم لوگ اس اجلاس میں شریک نہ ہو سکے۔ تاہم کوشش کی جارہی ہے کہ حقانی نیٹ ورک کو بھی اعتماد میں لے کر ہی آگے بڑھا جائے۔ حقانی نیٹ ورک کے اہم رہنمائوں نے طالبان قیادت کو بتایا ہے کہ چھ مہینے کا وقت انتہائی قلیل ہے۔ جنگ بندی، قیدیوں کے تبادلے اور قیدیوں کی رہائی کے علاوہ دیگر نکات پر اس دوران کچھ نہیں ہو سکتا۔ اس لئے افغان طالبان کو بڑی احتیاط اور آہستہ آہستہ معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ کیونکہ امریکا تین سال کے اندر اندر انخلا چاہتا ہے جبکہ طالبان بھی تین سال کے اندر ہی اس مسئلے کے حل کیلئے مختلف اقدامات اٹھانا چاہتے ہیں، تاہم امریکا طالبان سے چھ ماہ کے اندر اپنے مطالبات منوانے کے چکر میں ہے۔ جبکہ افغان سلامتی کے سابق مشیر اور صدارتی امیدوار حنیف اتمر نے افغان صدر کی جانب سے کمیٹی کی تشکیل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغان صدر نے خود کابل حکومت کو بے وقعت کر دیا ہے۔ جب طالبان نے کسی کمیٹی کا مطالبہ ہی نہیں کیا ہے تو اس کے بنانے کا کیا فائدہ؟
٭٭٭٭٭