امام بخاریؒ کا مجاہدہ:
شاعر کہتا ہے:
بِقَدرِ الکَدِّ تُکْتَسَبْ الْمَعَالی
فَمَنْ طَلَبَ الْعُلٰی سَہِرَ اللَّیَالِی
(محنت کے بقدر بلندیاں نصیب ہوتی ہیں، نیز جو بلندیاں چاہے، وہ راتوں کو جاگا کرے)
محنت کی جو بھی شکل ہو، امام بخاریؒ اسے اپنانے سے ہرگز گریز نہیں کرتے تھے، علم کے لیے مجاہدے کی بابت امام محمد بن ابی حاتم وراقؒ بیان کرتے ہیں کہ بسا اوقات دورانِ سفر امام بخاریؒ کے ساتھ ایک ہی کمرے میں رات گزرتی تھی۔ میں دیکھتا ہوں کہ رات کو پندرہ بیس دفعہ اٹھتے ہیں، ہر دفعہ چراغ جلا کر حدیث پر نشان لگاتے ہیں، پھر نماز تہجد ادا کرتے ہیں اور مجھے کبھی نہیں اٹھاتے۔
میں نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ آپ اس قدر مشقت برداشت کرتے ہیں، آپ مجھے اٹھا لیا کریں؟ امام صاحبؒ نے فرمایا: ’’تم جوان آدمی ہو، میں تمہاری نیند خراب کرنا نہیں چاہتا۔‘‘ (سیر اعلام النبلائ12/404 بحوالہ آفتاب بخارا 120)
آپؒ کے طعام کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ ابن حجر عسقلانیؒ نے فرمایا: ’’آپؒ کی خوراک بہت ہی کم تھی، بہت زیادہ مجاہدہ کھانے کے اعتبار سے برداشت کرتے تھے، امام بخاریؒ کا قارورہ جب معائنے کے لیے اطباء کے پاس پیش کیا گیا تو اطباء نے دیکھ کر کہا کہ یہ ان لوگوں کے قارورے کی طرح ہے جو سالن کا استعمال نہیں کرتے۔
امام بخاریؒ نے فرمایا: ہاں بات صحیح ہے، میں نے چالیس سال سے شوربا استعمال نہیں کیا، اس کے علاج کے بارے میں پوچھا گیا تو اطباء نے کہا کہ اس کا علاج شوربا استعمال کرنا ہے۔ امام بخاریؒ نے انکار کیا حتیٰ کہ مشائخ واہل علم نے بہت ہی زیادہ التجا کی تو رو ٹی کے ساتھ شکر استعمال کرنے لگے۔‘‘ (فتح الباری 1/481)
یہی وہ مجاہدات ہیں، جن کی وجہ سے حق تعالیٰ نے امام بخاریؒ کو قابلِ رشک بلندیاں نصیب فرمائیں۔
امام بخاریؒ کا رمضان:
رمضان کی پہلی رات میں اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے، ان کی امامت فرماتے، ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت کرتے، نیز اسی ترتیب پر قرآن ختم فرماتے۔ ہر دن سحری تک قرآن کریم کا ایک تہائی حصہ تلاوت فرماتے۔ اس طرح تین رات میں تلاوت کرتے ہوئے قرآن ختم فرماتے۔ نیز رمضان کے ہر دن میں ایک دفعہ قرآن کریم ختم فرماتے اور ہر مرتبہ ختم کرتے ہوئے دعا کا اہتمام کرتے۔ (فتح الباری 1/481)
گویا رمضان کا مہینہ امام بخاریؒ کے یہاں تلاوت کا مہینہ ہوا کرتا۔ صبح وشام رات بھر تلاوت کا خا ص شغف و اہتمام ہوا کرتا۔
نیز ابتلاء آزمائش، تکالیف، مصیبتیں، امتحانات، انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام کو زیادہ پیش آئے ہیں، پھر جو شخص ان کے زیادہ قریب ہوتا ہے، اسے بھی ابتلاء و آزمائش میں ڈالا جاتا ہے۔ امام بخاریؒ کو بھی حق تعالیٰ نے بڑے بڑے امتحانات میں ڈالا۔ کئی مرتبہ آپؒ کو جلا وطنی کی زندگی گزارنا پڑی۔ معاصر علمائے کرام میں سے کئی ایک نے موقع بموقع آپؒ پر اعتراضات کیے اور آپ کے خلاف زبان درازی کا طویل سلسلہ جاری رکھا۔ امیروں اور حاکموں نے الگ طوفان کھڑا کیا، ان سب کے باوجود آپؒ نے اپنی زیان پر شکایت کے حروف نہیں لائے۔
اخیر میں سمرقند جانے کا ارادہ کیا تو روک دیا گیا، خرتنگ نامی چھوٹی سی جگہ میں امیر المومنین فی الحدیث امام بخاریؒ ابدی نیند سوگئے، لیکن ان تکالیف ومصیبتوں کو جھیل کر کسی کی بھی غیبت میں اپنی زبان کو ملوث نہیں کیا۔ علوم دینیہ کے حصول میں مشغول رہنے والوں کے لیے ایک بہترین سبق ہے کہ وہ امام بخاریؒ کے تحمل اور دوسرے اوصاف کو اپنی زندگی کا جزولا ینفک بنالیں، تب ہی جاکر کوئی بڑا علمی معرکہ سر کیا جاسکتا ہے اور ان صفات سے مزین ہو کر اپنی دنیوی واخروی زندگی کو سنوارے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭