معارف و مسائل
دوسرا مسئلہ غور طلب اور مختلف فیہ اس آیت میں یہ ہے کہ مطہرون سے کون مراد ہیں؟ صحابہؓ و تابعینؒ اور مفسرینؒ کی ایک بڑی جماعت کے نزدیک مطہرون سے مراد فرشتے ہیں، جو معاصی اور رذائل سے پاک و معصوم ہیں۔ یہ قول حضرت انسؓ اور سعید بن جبیرؒ سے منقول ہے۔ (قرطبی) حضرت ابن عباسؓ کا بھی یہی قول ہے۔ (ابن کثیر) امام مالکؒ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ (قرطبی)
اور بعض حضرات مفسرین نے فرمایا کہ قرآن سے مراد وہ مصحف ہے، جو ہمارے ہاتھوں میں ہے اور مطہرون سے مراد وہ لوگ ہیں، جو نجاست ظاہری اور معنوی یعنی حدث اصغر و اکبر سے پاک ہوں، حدث اصغر کے معنی بے وضو ہونے کے ہیں، اس کا ازالہ وضو کرنے سے ہو جاتا ہے اور حدث اکبر جنابت اور حیض و نفاس کو کہا جاتا ہے، جس سے پاکی کے لئے غسل ضروری ہے، یہ تفسیر حضرت عطائؒ، طاؤسؒ، سالمؒ اور حضرت محمد باقرؒ سے منقول ہے۔ (روح) اس صورت میں جملہ لا یمسہ اگرچہ جملہ خبریہ ہے، مگر اس خبر کو بحکم انشاء یعنی نہی و ممانعت کے معنی میں قرار دیا جائے گا اور مطلب آیت کا یہ ہوگا کہ مصحف قرآن کو چھونا بغیر طہارت کے جائز نہیں اور طہارت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ ظاہری نجاست سے بھی اس کا ہاتھ پاک ہو اور بے وضو بھی نہ ہو اور حدث اکبر یعنی جنابت بھی نہ ہو۔ قرطبیؒ نے اسی تفسیر کو اظہر فرمایا ہے۔ تفسیر مظہری میں اسی کی ترجیح پر زور دیا ہے۔
حضرت فاروق اعظمؓ کے اسلام لانے کے واقعے میں جو مذکور ہے کہ انہوں اپنی بہن کو قرآن پڑھتے ہوئے پایا تو اوراق قرآن کو دیکھنا چاہا، ان کی بہن نے یہی آیت پڑھ کر اوراق قرآن ان کے ہاتھ میں دینے سے انکار کیا کہ اس کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا، فاروق اعظمؓ نے مجبور ہو کر غسل کیا، پھر یہ اوراق پڑھے، اس واقعہ سے بھی اسی آخری تفسیر کی ترجیح ہوتی ہے اور روایات حدیث جن میں غیر طاہر کو قرآن کے چھونے سے منع کیا گیا ہے، ان روایات کو بھی بعض حضرات نے اس آخری تفسیر کی ترجیح کے لئے پیش کیا ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭