تاتاری شہزادی اور ایک عالم دین

بغداد پر تاتاریوں کی فتح کے بعد ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کر رہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا کہ لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ ہلاکو خان کی بیٹی نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ خدا پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں۔
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ خدا جسے چاہے، غالب کرتا ہے؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا خدا نے آج ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کر دیا ہے؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں۔
شہزادی: وہ کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے۔
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں، جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کئے رکھو گے۔ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے، اس دن تمہارا کام ختم ہو جائے گا۔
عالم اسباب:
یہ واقعہ حضرت علی بِن حربؒ نے بیان فرمایا کہ:
میں اور کچھ نوجوان دریائے موصل کے کنارے ایک کشتی پر بیٹھے۔ کشتی جب درمیان میں پہنچی تو ایک مچھلی دریا سے کود کر کشتی میں آ گئی۔ سب نے جب مچھلی کو دیکھا تو سوچا کسی جگہ کشتی روک کر اسے بھونا جائے۔
چنانچہ جب ناؤ ایک کنارے پر لگائی گئی اور آگ جلانے کے لیے لکڑیاں جمع کی جانے لگیں، اسی دوران ہم نے ایک ویرانہ دیکھا، جہاں پرانے کھنڈرات اور قدیم مکانوں کے آثار تھے اور دیکھا کہ: ایک شخص پڑا ہوا ہے، جس کے ہاتھوں کو کسی نے اس کے شانوں کے پیچھے اچھی طرح باندھ دیا ہے اور وہیں ایک دوسرا شخص ذبح ہو کر مرا پڑا ہے اور نزدیک ہی سامان سے لدا ہوا ایک خچّر کھڑا ہے۔
ہم لوگوں نے بندھے ہوئے شخص سے ماجرا دریافت کیا، اس نے کہا:
میں نے اس شخص کا خچّر کرائے پر لیا تھا۔ یہ مجھے راستے سے یہاں بھٹکا لایا اور میری مشکیں کس دیں اور کہا کہ میں تجھے قتل کر دوں گا۔ میں نے اس کو خدا کا واسطہ دیا کہ ظلم نہ کر اور میرے قتل کا گناہ اپنی گردن پر نہ لے اور میں نے یہ بھی کہا کہ یہ سارا سامان تو لے لے، میں نے تیرے لیے حلال کیا اور میں اس کی کسی سے شکایت بھی نہ کروں گا۔ میں نے اسے قسم بھی دی، مگر وہ اپنے ارادے پر اَڑا رہا اور مجھے مارنے کے لیے اس نے اپنی کمر میں سختی سے ٹھونسا ہوا چھرا کھینچا تو وہ آسانی سے نہیں نکلا۔ مگر جب اس نے چھرا زور سے جھٹکا دے کر نکالا تو وہ ایک دم اس کی حلق پر آ لگا اور وہ خود بخود ذبح ہو گیا، جیسا کہ آپ لوگ دیکھ رہے ہیں۔
ہم نے اس کی مشکیں کھول دیں اور وہ شخص خچر اور اپنا سامان لے کر اپنے گھر گیا۔ پھر ہم لوگ کشتی میں سوار ہوئے کہ: ’’مچھلی نکالیں تو وہ کود کر دریا میں جا چکی تھی۔‘‘ یقیناً یہ واقعہ نہایت حیرت انگیز ہے۔
(روض الریاحین فی حکایت الصالحین، اردو ترجمہ بزمِ اولیاء صفحہ 330)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment