قرضہ ملنے پر مہنگالی کے طوفان میں مزید شدت کا خدشہ

محمد زبیر خان
حکومت اگر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے قرضہ لینے میں کامیاب ہوگئی تو مہنگائی کے طوفان میں مزید شدت آئے گی۔ ادھر ڈالر کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ سے مہنگائی میں دس فیصد اضافہ سامنے آئے گا، جس کے بعد اس سال اب تک مجموعی طور پر مہنگائی میں بیس فیصد اضافہ کنفرم ہوجائے گا۔ ڈالر کی قیمت میں حالیہ اضافہ پانچ فیصد ہے، جبکہ ایک سال میں ڈالر 32 فیصد مہنگا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضہ کیلئے مزید بات چیت شروع کرنے سے پہلے ڈالر کو 145 روپے کی سطح پر لانا ہوگا، جبکہ قرضہ ملنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہوگا۔ ماہرین معاشیات سال 2019ء کو پاکستان کے معاشی حالات اور بالخصوص غریب عوام کیلئے خوفناک قرار دے رہے ہیں۔ شرح سود میں اضافے کے بعد عوام پر براہ راست اڑھائی سو ارب روپے کے مزید ٹیکس لگائے جائیںگے۔ متوسط آمدن والے افراد جو اپنے ماہانہ راشن پر 20 ہزار روپے خرچ کرتے ہیں، اب انہیں کچن چلانے کیلئے دو ہزار روپے اضافی بھرنا پڑیں گے۔
پاکستان کے ماہر معاشیات اور کاروباری حلقے حالیہ اڑان کو ڈالر کی قیمتوں میں مزید اضافے کا پیش خیمہ سمجھ رہے ہیں۔ واضح رہے کہ جمعہ کے روز ڈالر کی مالیت 142 روپے تک پہنچ گئی تھی اور اس اضافہ نے کئی ریکارڈ توڑے ہیں۔ ایک تو یہ اضافہ اپنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر تھا اور ایک ہی روز میں ڈالر کی قیمت میں دس روپے کا اضافہ شاذ و نادر ہی دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ اضافہ ایک سال کے دوران ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔ حالیہ اضافہ پانچ فیصد تھا جبکہ ایک سال کے دوران ڈالر کی قیمت میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ خیال رہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رحجان رواں سال مارچ میں شروع ہوا تھا، جب انٹر بینک میں ڈالر کی قدر بڑھ کر 115.50 روپے تک پہنچ گئی تھی جس پر کرنسی کا کاروبار کرنے والوں اور ماہرین نے اس شک کا اظہار کیا تھا کہ اس کی وجہ بین الاقوامی فنانشل اداروں سے قرضوں کی ادائیگی کیلئے کئے گئے وعدے ہیں۔ پھر رواں سال ہی جون کے مہینے میں ڈالر مزید بڑھا اور ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح (اس وقت کی) یعنی 121 روپے پر پہنچ گیا تھا۔ نگراں حکومت کے دور میں الیکشن کے انعقاد سے قبل امریکی ڈالر 118 روپے سے بڑھ کر 130 تک پہنچ گیا تھا لیکن الیکشن کے بعد ملک میں روپے کے مقابلے میں ڈالر 122 روپے میں فروخت ہونے لگا۔ مگر بات یہاں نہ رکی اور موجودہ حکومت کی جانب سے عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے فیصلے کے فوری بعد ڈالر کی قیمت میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا اور انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 138 روپے تک پہنچ گیا، لیکن پھر قدرے کم ہونے کے بعد 133 پر آکر رک گیا تھا۔ تاہم جمعہ کے روز اس کی قیمت 142 روپے تک پہنچ گئی، جبکہ کاروبار کے اختتام سے اب تک ڈالر 138 کی سطح پر برقرار ہے۔ تاہم کاروباری حلقوں اور ماہرین معاشیات نے ’’امت‘‘ کو بتایا ہے کہ آئی ایم ایف نے باضابطہ قرضہ دینے کی شرائط طے کرنے یا قرضہ کی بات چیت کو آگے بڑھانے کیلئے شرط رکھی ہے کہ پاکستان ڈالر کی قیمت کو 145 تک لے کر جائے گا، جس کے بعد آئی ایم ایف سے معاملات طے ہوسکیں گے۔ ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کو اس وقت قرضہ دے گا جب پاکستان میں ڈالر کی قیمت 145 ہوگی اور قرضہ ملنے کے بعد ڈالر کو مزید بلند سطح پر لے جایا جائے گا جو ممکنہ طور پر 150 سے لے کر 155 روپے تک ہوسکتی ہے۔
ممتاز ماہر معاشیات ممتاز اسلم نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ حالیہ دنوں میں ڈالر مہنگا ہونے کے بعد مہنگائی میں دس فیصد اضافہ ہوگا، جبکہ رواں سال کے دوران مجموعی طور پر مہنگائی میں بیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ محتاط اندازہ ہے، جبکہ ممکنہ طور پر اس میں کسی قسم کے مزید اضافہ کا بھی خدشہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسٹیٹ بینک نے شرح سود میں بھی اضافہ کردیا ہے اور جب ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو قرضوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر خزانہ اسد عمر کچھ بھی کہہ لیں کہ غریب آدمی کی گیس کی قیمت نہیں بڑھائی، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ عام آدمی کیلئے کرایوں، سبزی دال کی قیمتوں میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف جب حکومت میں آئی تو ڈالر 124 روپے پر تھا اور اب 142 تک پہنچ گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب قرضہ بڑھتا ہے تو حکومت کو ہر صورت میں ٹیکس لگانا پڑتا ہے۔ تحریک انصاف نے بر سر اقتدار آتے ہی ضمنی بجٹ دیا تھا جس میں دو سو ارب روپیہ کے ٹیکس لگائے گئے تھے۔ ممتاز اسلم کا کہنا تھا کہ حکومت نے اس کے ساتھ ساتھ جو شرح سود میں اضافہ کیا ہے اس سے سالانہ ساڑھے چار سو ارب روپیے سود کی ادائیگی کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب حکومت عوام پر مزید اڑھائی سو ارب روپیہ کے ٹیکس لگائے گی تو سود کو اتار سکے گئی۔ اس سے ہر کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ عام آدمی پر کتنا زیادہ بوجھ ڈالا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ سال 2019ء عام آدمی کیلئے معاشی طور پر بہت سخت ہوگا، مہنگائی کا طوفان ہوگا اور اس میں پاکستان کے غریب عوام ہوں گے۔
متوسط آمدن والے افراد جو کہ اپنے ماہوار راشن وغیرہ پر بیس ہزار سے لیکر تیس ہزار روپیہ خرچ کرتے ہیں اب ان کو صرف راشن وغیرہ کیلئے دو ہزار سے لیکر تین ہزار روپے اضافی درکار ہوں گے، جبکہ کمرشل ٹرانسپورٹ وغیرہ کے کرایوں اور یویٹیلٹی بلوں میں اضافہ اس کے علاوہ ہوگا۔ خیال رہے کہ اسلام آباد میں ہی ایک پریس کانفرنس کے دوران وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا تھا کہ بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضوں، زرِ مبادلہ کے ذخائر میں کمی اور برآمدات میں کمی کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کو کم کرنا ضروری تھا۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment