تحریک لبیک قیادت کے خلاف مقدمے میں بغاوت کی دفعہ شامل

نجم الحسن عارف
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق حکومت نے تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت علامہ خادم حسین رضوی کے خلاف لاہور کے سول لائن تھانے میں جبکہ پیر افضل قادری کے خلاف گجرات میں بغاوت اور دہشت گردی کے مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔ تحریک لبیک کے دونوں مرکزی قائدین کے علاوہ بھی دو مرکزی رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ علامہ خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری اور ان کے ساتھیوں کو 24 اکتوبر کی رات حراست میں لیا گیا تھا۔ جبکہ تھانہ سول لائن لاہور میں تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف 31 اکتوبر کو چیئرنگ کراس پر دھرنا دینے کیخلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس مقدمے میں بغاوت کی دفعات شامل نہیں تھیں، نہ ہی دہشت گردی کی دفعات کا کوئی ذکر تھا۔ پولیس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یکم دسمبر کو اطلاع ملی ہے کہ محکمہ داخلہ نے بغاوت کی 124 اے کی نئی دفعہ مقدمے میں شامل کردی ہے۔ لیکن شام کے بعد تک تھانے میں باضابطہ طور پر ایسی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ابھی تک یہ صرف اطلاع زبانی کلامی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کی قیادت کو کوٹ لکھپت جیل میں انتہائی کڑی نگرانی میں رکھا گیا ہے۔ تحریک کے گرفتار کارکنوں کے علاوہ اعلیٰ قیادت سے بھی ان کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔ ذرائع کے بقول آئندہ دنوں بھی یہی اسٹرٹیجی رکھی جائے گی تاکہ زیر حراست افراد کا باہر سے کسی طرح کا رابطہ نہ ہو اور کوئی پیغام باہر نہ جاسکے۔ واضح رہے کہ 31 اکتوبر کو لاہور کے چیئرنگ کراس پر دھرنے میں شرکت پر تحریک لبیک کے امیر علامہ خادم حسین رضوی، سرپرست اعلیٰ پیر افضل قادری، وحید نور، علامہ غلام مصطفی اور علامہ مراد علی شاہ وہاڑی کے خلاف درج مقدمے نمبر 954/18 میں درج ذیل جو دفعات لگائی گئی تھیں، ان میں 291/290، 427/ 253/ 186 اور 188 ت پ کے علاوہ 16 ایم پی او شامل تھیں۔ ان میں سے 290 اور 291 کی دونوں دفعات سڑک بلاک کرنے، 353 اور 186 کارسرکار میں مزاحمت کرنے، 427 املاک کو نقصان پہنچانے اور 188 دفعہ 144 کی خلاف ورزی کی بنیاد پر لگائی گئی تھی۔ لیکن وفاقی حکومت کے فیصلے کے بعد یکم دسمبر کو تقریباً ایک ماہ کے غور و حوض کے بعد تحریک لبیک کی اعلیٰ قیادت کے خلاف وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق بغاوت اور دہشت گردی کے تحت مقدمات درج کئے گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے لاہور کے تھانہ سول لائن کا بھی ذکر کیا۔ لیکن ’’امت‘‘ نے متعلقہ اے ایس پی ڈاکٹر سمیر نور سے رابطہ کیا تو انہوں نے اس بارے میں اپنی مکمل لاعلمی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’ میں تو اس وقت وزیراعظم کی ڈیوٹی میں مصروف ہوں۔ میرے نوٹس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اگر کوئی پیش رفت آج ہوئی ہے تو اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔ پولیس ذرائع نے اس امر کی بھی تردید کی ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کو اس مقدمے کے اندراج کے بعد تھانہ سول لائن میں لایا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق اگر ’’ہم انہیں گرفتار کیا ہوتا تو اگلے ہی روز انہیں عدالت میں پیش کرنے کے پابند تھے۔ اب وہ پہلے سے ہی جیل میں ہیں۔ اس لئے ان سے ضرورت پڑنے پر جیل میں ہی تفتیش ہوگی۔ پھر ریمانڈ کی ضرورت ہوئی تو انہیں عدالت لے جائیں گے۔ لیکن وہ اب ہماری تحویل میں نہیں رکھے گئے ہیں‘‘۔ پولیس کے ایک ذمہ دار نے ’’امت‘‘ کے سوال پر کہا کہ محکمہ داخلہ چاہے تو کسی مقدمے میں بعد میں دفعات شامل کر سکتا ہے۔ جیسا کہ یہ آج اطلاع آئی ہے۔ تاہم اس ذمہ دار کے مطابق ’’ایسی کوئی درخواست پولیس کی طرف سے گئی ہو، ہمارے علم میں نہیں ہے‘‘۔
دوسری جانب پولیس اور دوسرے سیکورٹی اداروں نے 24 نومبر سے اب تک ایک ہفتہ گزر جانے کے بعد بھی تحریک لبیک کی زیر حراست قیادت اور کارکنوں سے ان کے اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے۔ بلکہ اکثر کے اہل خانہ کو یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ ان کے بیٹوں، بھائیوں یا والد کو کس تھانے یا جیل میں رکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں ’’امت‘‘ نے علامہ خادم رضوی کے مدرسے اور مسجد رحمت اللعامین کے اوپر واقع مولانا رضوی کی رہائش گاہ تک جانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ مسجد اور مدرسے کے اندر اب بھی سیکورٹی اہلکار موجود ہیں۔ اس لئے عام آدمی علامہ خادم رضوی کے اہل خانہ سے رابطہ میں آسکتا ہے نہ انہیں اس امر کی اجازت ہے۔ اسی طرح ’’امت‘‘ نے صوبائی اسمبلی حلقہ 165 سے تحریک لبیک کے زیر حراست امیدوار امجد نعیم سیفی کے بیٹے امین امجد سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے والد بلڈ پریشر سمیت کئی عوارض میں مبتلا ہیں، لیکن جب سے انہیں گرفتار کیا گیا ہے، ہمیں ان سے ملاقات کی اجازت دی گئی ہے نہ ہی ان کو کپڑے اور ادویات فراہم کرنے کی اجازت دی گئی۔ حتیٰ کہ پولیس یہ بھی بتانے کو تیار نہیں ہے کہ میرے والد کو کہاں رکھا گیا ہے اور وہ کس حال میں ہیں‘‘۔ تحریک لبیک کے بعض دیگر کارکنوں نے بھی سخت خوفزدگی کی حالت میں ’’امت‘‘ سے بات کی، مگر اپنا نام ظاہر کرنے سے معذرت کرلی۔ ان کا کہنا تھا کہ 24 سے 25 ہزار افراد پہلے پکڑے جاچکے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ جمعہ کے روز بھی مختلف مساجد سے مزید بیسیوں افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان کارکنوں نے کہا کہ چونکہ پارٹی کے عہدیداروں اور اہم کارکنوں کو ہزاروں کی تعداد میں گرفتار کر لیا گیا ہے، اس لئے لیگل ایڈ کا کام بھی عملاً نہیں ہو رہا۔ کارکنوں کے بقول ان سے کسی پارٹی عہدیدار نے فون پر بھی رابطہ نہیں کیا۔ جو گرفتاری سے بچ گئے، وہ عملاً روپوش ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment