امت رپورٹ
لاہور کا بدنام زمانہ قبضہ مافیا ڈان منشا بم اس وقت جیل میں ہے۔ تاہم باہر اس کا طاقتور گروپ بدستور متحرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قبضہ گروپ سے جو اراضی واگزار کرائی جا چکی ہے وہ اب تک متاثرین کو نہیں مل سکی ہے۔ لاہور میں موجود ذرائع کے مطابق ایل ڈی اے اور پولیس میں موجود منشا گروپ کے بعض سپورٹرز اس صورت حال کا بڑا سبب ہیں۔ متاثرین کو ان کی زمین تاحال واپس نہ ملنے پر سپریم کورٹ نے بھی سخت برہمی کا اظہار کیا ہے۔
سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ہفتے کے روز قبضہ گروپ منشا بم کے خلاف کیس کی سماعت کے بعد ایک بار پھر میڈیا میں ’’منشا بم ‘‘ کے نام کی بازگشت ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوران سماعت منشا بم سے واگزار کرائی زمین متاثرین کو واپس نہ کرنے پر پنجاب پولیس کو سخت تنبیہ کی اور ڈی آئی جی وقاص نذیر کو کہا کہ ایک منشا بم کیوں قابو میں نہیں آ رہا؟ بعد ازاں چیف جسٹس نے ہفتے کی رات بارہ بجے سے پہلے متاثرین کو قبضہ واپس دلانے کی ہدایت کی۔
قریباً دو ماہ قبل منشا بم کا کیس سپریم کورٹ میں آنے اور میڈیا میں ہائی لائٹ ہونے کے بعد وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اراضی واگزار کرانے کے لئے آپریشن شروع کیا تھا۔ تاہم اب تک متاثرین کو ان کی اراضی واپس نہیں مل سکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اراضی واپس نہ ملنے والے متاثرین میں بیرون ملک مقیم وہ پاکستانی محمود اشرف بھی شامل ہیں، جن کی سپریم کورٹ میں درخواست پر ہی منشا قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی شروع ہوئی تھی۔ لاہور کے معروف علاقے جوہر ٹائون میں محمود اشرف کے 9 پلاٹس پر منشا گروپ کا قبضہ تھا۔ اب تک منشا گروپ کے قبضے سے کُل 80 کینال اراضی واگزار کرائی جا چکی ہے۔ جس کی مالیت پانچ ارب روپے ہے۔ اس 80 کینال اراضی میں سے 50 کینال ایل ڈی اے کی تھی اور 30 کینال غیر سرکاری یعنی مختلف لوگوں کی ملکیت تھی۔ واگزار کرائی گئی زمین پر فرنیچر مارکیٹ، شو روم، ورکشاپس اور دیگر دکانیں تھیں۔ جنہیں اب منہدم کیا جا چکا ہے۔ منشا گروپ کے ساتھ کبھی رابطے میں رہنے والے ایک ذریعے نے انکشاف کیا کہ اس مارکیٹ، شوروم، ورکشاپ اور دیگر دکانوں کے علاوہ منشا گروپ نے جوہر ٹائون میں کئی مکانوں پر قبضے کر کے بھی انہیں کرائے پر دے رکھا تھا اور صرف کرائے کی مد میں ماہانہ دو کروڑ روپے کما رہا تھا۔ منشا گروپ نے زیادہ تر قبضے ایسے اوورسیز پاکستانیوں کی اراضی اور مکانات پر کئے جن کی جائیداد کا پیچھے کوئی والی وارث نہیں تھا۔ ذرائع کے مطابق ایل ڈی اے میں موجود کرپٹ عناصر اور پٹواریوں کے ذریعے قبضہ کی جانے والی اراضی اور مکانات کے باقاعدہ جعلی کاغذات تیار کرائے جاتے تھے۔ اگر متاثرین میں سے کوئی عدالت کے ذریعے پولیس کی مدد سے قبضہ چھڑانے آتا تو منشا بم کے کارندے پوری ٹیم کو فائرنگ کر کے بھگا دیا کرتے تھے۔ ذرائع کے مطابق منشا بم گروپ صرف خالی اراضی پر ہی قبضہ نہیں کیا کرتا تھا بلکہ اس نے بھرے گھروں کے مکینوں کو زبردستی بے دخل کر کے بھی ان کے مکانوں پر قبضہ کیا۔ ذرائع کے مطابق منشا بم کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو پولیس افسر اور اہلکار اس کے زیر اثر نہیں ہوتے اور اراضی واگزار کرانے کی کوشش کرتے وہ ان کا تبادلہ کرا دیا کرتا تھا۔ اور اگر متاثرین میں سے کوئی تگڑا وکیل کر لیتا تو منشا گروپ اس وکیل کو ہی خرید لیا کرتا تھا۔ پھر یہ وکیل بھاری فیسیں لینے کے باوجود نہ صرف اپنے موکل کا کیس خراب کر دیتے بلکہ نچلی عدالتوں میں اپنا اثر و رسوخ بھی استعمال کرتے۔ ہفتے کے روز سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران ایک متاثرہ شخص نے دُہائی دی کہ سول جج اس کے ساتھ بدتمیزی سے جب کہ منشا بم اور ان کے وکلا کے ساتھ تمیز سے پیش آتے ہیں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ماضی کا اثر و رسوخ کسی حد تک اب بھی موجود ہے۔ جبکہ ایل ڈی اے میں منشا بم گروپ کی جڑیں اس قدر مضبوط تھیں کہ جو متاثرین اپنی اراضی واگزار کرانے کے لئے ایل ڈی اے سے رابطہ کرتے تو وہاں موجود بعض عناصر کی جانب سے بھی انہیں دھمکیاں ملا کرتی تھیں۔
منشا کھوکھر عرف منشا بم ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل پیر محل کے ایک نواحی گائوں 685/26 گ ب میں پیدا ہوا۔ اس کے آبائی گائوں کے ایک رہائشی نے بتایا کہ ’’ منشا کھوکھر کا والد حکیم علی کھوکھر اپنی فیملی کے ہمراہ 70ء کی دہائی میں پیر محل چھوڑ کر لاہور آباد ہو گیا تھا۔ جہاں منشا کی فیملی نے اپنا مسکن جوہر ٹائون کو بنایا، جو اس دور میں اجاڑ ویران علاقہ تھا۔ لیکن چونکہ جوہر ٹائون شروع سے ہی کھوکھر برادری کا مرکز رہا ہے لہٰذا منشا کھوکھر کے خاندان نے بھی اپنی برادری پر مشتمل اسی علاقے میں سکونت کا فیصلہ کیا‘‘۔
ذرائع کے مطابق تقریباً 30 برس قبل جوہر ٹائون زرعی اراضی پر مشتمل تھا۔ یہاں آ کر منشا بم کے خاندان نے بھی کھیتی باڑی اور زمینداری کا کام شروع کیا۔ کھیتی باڑی جیسے کم آمدنی والے کام سے بیزار انگوٹھا چھاپ منشا بم نے اراضی پر قبضوں کا کام 80ء کی دہائی کے اوائل میں شروع کیا۔ اس کے خلاف 1982ء میں تھانہ نولکھا میں پہلا پرچہ غیر قانونی قبضے پر ہی کٹا تھا۔ ذرائع کے مطابق منشا قبضہ گروپ کا اصل عروج اس وقت شروع ہوا جب 90ء کی دہائی کے اواخر میں علاقے کے بااثر کھوکھر خاندان نے سیاست میں قدم رکھا۔ سیاست میں آنے کے بعد کھوکھر خاندان کا سربراہ ملک شفیع نمبردار پہلی بار 2002ء کے عام انتخابات میں رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوا۔ بعد ازاں کھوکھر فیملی کے دیگر ارکان بھی الیکشن لڑتے رہے اور کامیاب ہوتے رہے۔ کھوکھر فیملی کا مسلم لیگ (ن) سے پرانا تعلق ہے۔ اس وقت بھی شفیع کھوکھر کا چھوٹا بھائی افضل کھوکھر رکن قومی اسمبلی اور سیف الملوک کھوکھر رکن صوبائی اسمبلی ہے۔ دونوں نے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا تھا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں منشا بم کے خلاف کیس کی تازہ سماعت میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ افضل کھوکھر سمیت اس کیس پر اثر انداز ہونے والے سب لوگوں کو عدالت میں بلا رہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ ابتداء میں شاطر منشا بم نے اپنی برادری کے بااثر سیاستدان شفیع کھوکھر سے تعلقات بنائے۔ بعد ازاں مشرف دور میں کئی ضلعی ناظموں سے بھی اس کے گہرے روابط ہو چکے تھے۔ جب پنجاب میں چوہدری برادران کی حکومت تھی تو منشا گروپ ان کے قریب ہو گیا۔ خاص طور پر راجہ بشارت اور چوہدری ظہیر الدین سے منشا بم کی اچھی علیک سلیک تھی۔ جلد ہی منشا بم نے مسلم لیگ (ق) سے قریب ایک بااثر بیورو کریٹ سے بھی دعا سلام کر لی اور یوں اس کے ذریعے بیورو کریسی میں بھی اپنی جڑیں آہستہ آہستہ مضبوط کرتا چلا گیا۔ ذرائع کے مطابق ساتھ ہی پنجاب پولیس میں بھی منشا گروپ کے خاصے ہمدرد پیدا ہو چکے تھے۔ ان سپورٹرز میں دو سابق سی سی پی او لاہور اور دو سابق آئی جی پنجاب شامل ہیں۔ ذرائع کے بقول جن لوگوں کی اراضی پر کوئی دوسرا بااثر گروپ قبضہ کر لیا کرتا تھا۔ ایسے متاثرین کی اراضی کو بھی نصف قیمت ادا کر کے منشا بم حاصل کر لیا کرتا تھا۔ بعد ازاں یہ قبضہ چھڑانے کے لئے منشا بم گروپ لاہور کے نامی گرامی بدمعاشوں گوگی بٹ اور ٹیپو ٹرکاں والا کی مدد حاصل کرتا تھا۔ ٹیپو ٹرکاں والا اب قتل ہو چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق پچھلے دو برس میں منشا بم گروپ کے شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے تعلقات کشیدہ ہو چکے تھے۔ جب منشا بم نے دیکھا کہ اب تحریک انصاف کا دور آ چکا ہے تو اس نے اپنی برادری کے ان ارکان اسمبلی سے تعلقات استوار کر لئے جو پی ٹی آئی جوائن کر چکے تھے۔ ان میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی کرامت کھوکھر اور ندیم عباس کھوکھر عرف بارا شامل ہیں۔ کرامت کھوکھر پہلے پیپلز پارٹی میں ہوا کرتے تھے۔ یاد رہے کہ منشا بم کے بیٹے کو پولیس سے چھڑانے کے لئے فون کرنے والے کرامت کھوکھر اور ندیم بارا کی بھی سپریم کورٹ میں پیشی ہوئی تھی۔ جہاں کرامت کھوکھر نے کہا تھا کہ انہوں نے منشا بم کے بیٹے کو چھڑا کر بڑی غلطی کی۔ بعد ازاں کرامت کھوکھر اور ندیم بارا کی جانب سے عدالت میں تحریری معافی نامی جمع کرانے پر دونوں کی جان چھٹی تھی۔
منشا بم پر 82 مقدمات درج ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ 28 مقدمات تھانہ ٹائون شپ جبکہ دوسرے اور تیسرے نمبر پر بالترتیب تھانہ جوہر ٹائون میں 24 اور تھانہ گرین ٹائون میں 20 درج ہیں۔ اسی طرح شہر کے دیگر تھانوں میں بھی مختلف کیس ہیں۔ ذرائع کے بقول منشا گروپ کے پروان چڑھنے کا راز یہ ہے کہ اس نے ہر برسراقتدار پارٹی کے ارکان اسمبلی کے ساتھ تعلقات بنا کر رکھے۔
2017ء میں انکم ٹیکس کے گوشواروں میں منشا بم نے اپنی سالانہ آمدنی چار لاکھ 40 ہزار روپے ظاہر کی تھی۔ جبکہ ایف بی آر میں اپنے کل اثاثوں کی مالیت 18 لاکھ 40 ہزار روپے بتائی۔ حالانکہ منشا بم کئی کنال پر مشتمل عالی شان گھر میں رہتا ہے۔ اور صرف اس گھر کی مالیت کروڑوں روپے میں ہے۔ منشا بم کے ساتھ اس کا ایک بیٹا عاصم کھوکھر بھی گرفتار ہوا تھا۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ میڈیا میں یہ نام اس کی عرفیت ہے۔ اصل نام وقاص کھوکھر ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ منشا بم کے ایک بیٹا طارق کھوکھر نے گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر یو سی چیئرمین کا الیکشن بھی لڑا تھا۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی کے ساتھ طارق کھوکھر کی ایک تصویر عرصے تک سوشل میڈیا پر وائرل رہی۔ ٭
٭٭٭٭٭