کراماً کاتبین:
حضرت سفیان ثوریؒ (مشہور محدث و فقیہ) فرماتے ہیں: جب کوئی آدمی قرآن پاک کا ختم کرتا ہے تو (کراماً کاتبین) فرشتہ اس کو دونوں آنکھوں کے درمیان بوسہ دیتا ہے۔
حضرت علی بن ابی طالبؓ فرماتے ہیں: جس نے اپنا ننگ کھولا اس سے فرشتہ الگ ہوجاتا ہے۔ حضرت عطائؒ (مشہور تابعی مفسر) فرماتے ہیں: جب تو قضائے حاجت کی حالت میں ہو، اس وقت تیرے پاس فرشتے (کراماً کاتبین) نہیں آتے۔
حضرت ابو صالح حنفیؒ (تابعی) فرماتے ہیں: جب کوئی انسان حالت طہارت میں اپنے بستر پر لیٹتا ہے تو فرشتہ اس (کے جسم) پر اپنا ہاتھ پھیرتا ہے۔
(حدیث) حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمؐ کو فرماتے ہوئے سنا:
ترجمہ: جب کوئی بندہ مریض ہوتا ہے تو رب تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں: میرا بندہ میری جکڑ میں ہے، جب اس کو مرض لاحق ہوئی تھی اور وہ (نیک اعمال میں) محنت کر رہا تھا۔ تو فرماتے ہیں اس کیلئے اتنا ثواب لکھتے رہو، جتنا وہ اپنی محنت سے عمل کرتا تھا اور اگر اس کو اس حالت میں مرض لاحق ہوئی کہ وہ کوئی بھی نیک عمل نہیں کر رہا تھا تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں اس کے لیے اس کا اجر لکھو جو وہ اپنی فرصت میں کر رہا تھا۔ (یعنی اگر وہ گناہ سے رکا ہوا تھا تو اس کے لیے گناہ سے باز رہنے کا ثواب لکھتے رہو)
(حدیث) حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اکرمؐ کے پاس موجود تھے کہ آپؐ نے تبسم فرمایا، تو ہم نے عرض کیا: حضور! آپ نے کیوں تبسم فرمایا ہے؟ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ: میں مؤمن سے اور اس کی بیماری میں گھبراہٹ سے حیران ہو رہا ہوں۔ اگر یہ بیماری کا ثواب و اجر جان لے تو پسند کرے کہ وہ بیمار پڑ جائے، یہاں تک کہ حق تعالیٰ سے جا ملے۔ (یعنی موت آجائے۔)
حضرت ابن مسعودؓ فرماتے ہیں (پھر ) رسول اکرمؐ نے اپنی نظر مبارک آسمان کی طرف بلند فرمائی، پھر جھکالی، ہم نے عرض کیا: حضور! آپؐ نے ایسا کیوں کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا:
ترجمہ: میں فرشتوں میں سے ان دو فرشتوں پر حیران ہوں، جو زمین پر نازل ہوئے اور ایک نیک آدمی کو اس کی جائے نماز پر تلاش کرتے رہے، جب اسے نہ پایا تو اپنے رب تعالیٰ کے پاس آسمان پر چلے گئے اور عرض کیا: اے ہمارے پروردگار! ہم آپ کے (فلاں) مومن بندے کے رات دن کے ایسے ایسے اعمال لکھا کرتے تھے، اب ہم نے اسے اس حالت میں پایا ہے کہ آپ نے اسے اپنی رسی (بیماری) میں جکڑ رکھا ہے۔ اس لیے ہم نے اس کا کوئی عمل نہیں لکھا۔ تو حق تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے کے لیے اس کے دن رات کے عمل لکھتے رہو (جو وہ اپنی حالت صحت میں کیا کرتا تھا) اور میرے اس کو لاچار کر دینے سے اس کے اعمال (صالحہ) (کے لکھنے) میں اجر و ثواب کی کمی نہ کرو، اس کے لیے (نیک اعمال کا) وہی اجر ہے، جو یہ (حالت صحت میں) کیا کرتا تھا۔
(فائدہ) اگر کوئی آدمی کسی بیماری اور عذر کی بناء پر کسی نیک عمل کے کرنے سے رہ جائے تو حق تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ وہ اب بھی اپنے بندوں پر ایسی کرم نوازی کرتا ہے۔ (جاری ہے)