قسط نمبر 10
بے مثال و بے نظیر:
حافظ ابو احمد اعمشؒ بیان کرتے ہیں کہ: ’’ایک مرتبہ نیشاپور کی ایک مجلس میں امام مسلم بن حجاجؒ، امام بخاریؒ سے ملنے آئے۔ دوران مجلس کسی شخص نے یہ حدیث شریف پڑھی:
’’ابن جریح روایت کرتے ہیں موسیٰ بن عقبہ سے، وہ روایت کرتے ہیں اسماعیل بن ابی صالح سے، وہ روایت کرتے ہیں حضرت ابوہریرہؓ سے کہ رسول اقدسؐ نے فرمایا کہ: مجلس کا کفارہ یہ ہے کہ جب بندہ کھڑا ہو تو وہ یہ کہے: ’’خدایا! تیری ذات پاک ہے اور تیرے ہی لئے تعریف ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ میں استغفار کرتا ہوں تجھ سے اور تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں۔‘‘
امام مسلمؒ نے اس حدیث کو سن کر کہا: ’’واہ! کس قدر عمدہ حدیث ہے۔ دنیا میں اس کا ثانی نہیں ہے۔ یعنی یہ حدیث صرف اسی سند سے پائی جاتی ہے۔ پھر امام بخاریؒ سے پوچھا کیا آپ کو اس حدیث کی کسی اور سند کا علم ہے؟‘‘
امام بخاریؒ نے فرمایا: ’’ہاں! لیکن وہ سند معلول ہے (اس میں مخفی خرابی ہے)۔‘‘
امام مسلمؒ نے درخواست کی کہ مجھے وہ سند بتلائیں۔
امام بخاری نے فرمایا: ’’جس چیز کو حق تعالیٰ نے ظاہر نہیں کیا، تو اسے مخفی ہی رہنے دو۔‘‘
امام مسلمؒ نے اٹھ کر امام بخاریؒ کے سر کو بوسہ دیا اور اس عاجزی سے مطالبہ کیا کہ اگر امام بخاری نہ بتلاتے تو قریب تھا کہ امام مسلمؒ آبدیدہ ہو جاتے۔ بالآخر امام بخاریؒ نے فرمایا اگر نہیں مانتے تو لکھو: ’’ہم سے حدیث بیان کی موسیٰ بن اسماعیل نے، انہوں نے حدیث بیان کی وہیب سے، انہوں نے حدیث بیان کی موسیٰ بن عقبہ سے، انہوں نے روایت کی عون سے کہ حضور اقدسؐ نے فرمایا کہ: مجلس…‘‘
حضرت امام مسلمؒ اس حدیث کو سن کر بے حد مسرور ہوئے اور بے اختیار کہنے لگے: ’’اے امام! میں شہادت دیتا ہوں کہ دنیا میں کوئی شخص آپ کا مماثل نہیں ہے اور جو شخص آپ سے بغض رکھے، وہ حاسد کے سوا اور کچھ نہیں ہو گا۔‘‘ (تذکرۃ المحدثین، ص: 180)
امام بخاریؒ کی قوت حفظ بیان کر نے کے لئے یہ امر کافی ہے کہ جس کتاب کو وہ ایک نظر دیکھ لیتے تھے، وہ انہیں فوراً حفظ ہو جاتی تھی۔ تحصیل علم کے ابتدائی دور میں انہیں ستر ہزار احادیث حفظ تھیں۔ بعد میں جا کر یہ عدد تین لاکھ تک پہنچ گیا۔ جن میں سے ایک لاکھ احادیث صحیح اور دو لاکھ غیر صحیح تھیں۔ ایک مرتبہ آپ بلخ گئے تو وہاں کے لوگوں نے فرمائش کی کہ آپ اپنے شیوخ سے ایک ایک روایت بیان کریں تو آپؒ نے ایک ہزار شیوخ سے ایک ہزار احادیث زبانی بیان کر دیں۔
سلیمان بن مجاہدؒ کہتے ہیں کہ ایک دن میں محمد بن سلام بیکندی کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا۔ محمد بن سلام نے کہا: ’’اگر تم کچھ دیر پہلے میرے پاس آتے تو میں تم کو وہ بچہ دکھلاتا جسے ستر ہزار احادیث یاد ہیں۔‘‘ سلیمان نے اس مجلس سے اٹھ کر امام بخاریؒ کی تلاش شروع کر دی۔ بالآخر سلیمان نے امام بخاری کو ڈھونڈ نکالا اور پوچھا کیا تم ہی وہ شخص ہو، جس کو ستر ہزار احادیث حفظ ہیں؟
امام بخاری نے کہا: ’’مجھے اس سے بھی زیادہ احادیث یاد ہیں اور میں جن صحابہ کرامؓ سے احادیث روایت کرتا ہوں، ان میں سے اکثر کی ولادت اور وفات کی تاریخ اور ان کی جائے سکونت کے بارے میں بھی جانتا ہوں۔ نیز میں کسی حدیث کو روایت نہیں کرتا، مگر کتاب اور سنت سے اس کی اصل پر واقفیت رکھتا ہوں۔ (تذکرۃ المحدثین، ص: 175، محدثین عظام اور ان کے علمی کارنامے، ص: 116)
امام بخاریؒ کو احادیث یاد کرنے کا شوق بچپن ہی سے تھا۔ آپؒ کا حافظہ بے حد قوی تھا۔ چنانچہ دس سال ہی کی عمر میں آپ کا یہ حال تھا کہ مکتب میں جو حدیث سنتے، اس کو یاد کر لیتے۔
مکتب سے فراغت پانے کے بعد پتہ چلا کہ امام داخلیؒ بہت بڑے عالم حدیث ہیں تو آپؒ ان کی خدمت میں آنے جانے لگے۔ (جاری ہے)