بنی اسرائیل میں دو بھائی تھے، جن میں ایک مسلمان تھا اور دوسرا کافر اور تھے دونوں دریا کے شکاری۔ کافر بت کو سجدہ کرتا تھا، مگر جب مچھلیوں کے لئے جال دریا میں ڈالتا تو اس قدر مچھلیاں اس میں آجاتی تھیں کہ اس کو کھنچنا مشکل ہو جاتا، مگر مسلمان کے جال میں صرف ایک ہی مچھلی آتی تھی اور اسی پر صبر کے ساتھ خدا کا شکر ادا کرتا تھا۔
اتفاقاً ایک روز اس مسلمان کی بیوی اپنے مکان کی چھت پر گئی تو اس کی نظر کافر کی بیوی پر پڑی، جو زیور اور بہترین لباس سے آراستہ تھی۔ یہ دیکھ کر اس مسلمان کی بیوی کے دل میں وسوسہ پیدا ہوا کہ کاش میں بھی ایسی ہی ہوتی تو کافر کی بیوی بولی تو اپنے شوہر کو آمادہ کرلے، وہ بھی میرے شوہر کے معبود یعنی بت کی عبادت کیا کرے، تاکہ تو بھی میری طرح مالدار ہوجائے۔
یہ سن کر مسلمان بھائی کی بیوی کچھ غمزدہ سی ہوکر نیچے آئی اور جب اس کا شوہر گھر آیا تو اس نے بیوی کا حال متغیر دیکھ کر دریافت کیا کہ آخر کیا بات ہے، جس سے تو اس قدر غمزدہ معلوم ہوتی ہے؟ تو وہ کہنے لگی، بس میاں! یا تو تم مجھے طلاق دے دو یا اپنے بھائی کے معبود کی پرستش اختیار کرو۔ یہ سن کر اس کے شوہر نے کہا کہ خدا کی بندی تو خدا سے نہیں ڈرتی، ایمان کی دولت کے بعد یہ کفر کی باتیں کرتی ہے؟ تو عورت بولی: بس مجھ سے اب زیادہ باتیں نہ بناؤ، میں ننگی بوکھی نہیں رہ سکتی، جب کہ دوسری عورتوں اور خصوصاً تیرے بھائی کی بیوی کو میں دیکھ رہی ہوں کہ وہ زیورات اور عمدہ عمدہ لباس سے آراستہ رہتی ہے۔
جب اس مرد مومن نے دیکھا کہ عورت تریاہٹ پر اتر آئی ہے اور اس کا اصرار حد سے بڑھ چکا ہے تو اس نے عورت کو تسلی دی کہا اچھا! گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، میں کل سے کاریگروں اور مزدوروں میں جا کر محنت کرکے تجھے روزانہ دو درہم دیتا رہوں گا، تو اس سے اپنی حالت درست کرلینا۔ یہ سن کر عورت کو کچھ تسکین حاصل ہوئی اور سویرے ہی وہ مرد مؤمن مزدوری کی تلاش میں نکلا، لیکن کہیں اسے مزدوری نہیں ملی۔ یہ دیکھ کر وہ دریا کے کنارے پہنچا اور شام تک خدا کی عبادت میں مصروف رہ کر رات کو جب گھر آیا تو بیوی نے دریافت کیا، آج تم کہاں تھے؟ تو وہ کہنے لگا میں بادشاہ کی خدمت میں تھا، اس نے مجھ سے تیس دن کام کرنے کی شرط کی ہے، عورت بولی کہ آخر وہ بادشاہ تم کو کیا دے گا؟
تو اس نے جواب دیا کہ میرا بادشاہ بڑا کریم ہے اور اس کے خزانے مال و دولت سے بھرے ہوئے ہیں، وہ مجھے وہ دے گا جو میں چاہوں گا۔ چنانچہ اسی طرح برابر وہ اپنے معبود برحق کی عبادت میں مصروف رہا اور تیسری رات ہوئی تو بیوی نے کہا، سنو میاں! اگر کل تم نے مجھے مزدوری لاکر نہیں دی تو تم پر مجھے طلاق دینا لازم ہو جائے گا۔ یہ سن کر اس کو کسی قدر پریشانی لاحق ہوئی اور تیسری صبح کو اس نے ایک یہودی سے کہا: کیا تم مجھے مزدوری پر لگالو گے؟ یہ سن کر یہودی کہنے لگا کہ ہاں! تم کو مزدوری تو مل جائے گی، لیکن شرط یہ ہے کہ میرے پاس تمہارے کھانے پینے کا کوئی انتظام نہ ہوگا، چنانچہ وہ مرد مؤمن روزہ کی نیت کرکے یہودی کے ساتھ ہولیا اور حق تعالیٰ کے حکم سے حضرت جبرئیلؑ انتیس اشرفیاں ایک نورانی طباق میں لے کر اس کی بیوی کے پاس پہنچے اور کہنے لگے: میں بادشاہ کا قاصد ہوں! اسی نے یہ اشرفیاں لے کر مجھ کو تیرے پاس بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ تیرا شوہر ہمارے کام میں تھا، ہم نے اس کو نہ چھوڑا، یہاں تک کہ اسی نے ہم کو چھوڑ دیا اور یہودی کے پاس چلا گیا، اگر وہ ہمارا کام کرتا تو ہم اس کو اور زیادہ اجرت دیتے، بس یہ ایک اشرفی کی کمی اس وجہ سے ہوئی ہے۔
چنانچہ وہ عورت ان میں سے ایک اشرفی لے کر بازار گئی، جس پر ’’کلمہ شہادت‘‘ لکھا ہوا تھا، صراف نے ایک ہزار درہم اس کی قیمت عورت کے حوالے کر دی اور جب شام کو وہ مرد مؤمن گھر واپس آیا تو عورت نے اس سے دریافت کیا آج تم کہاں تھے؟ اس نے جواب دیا کہ آج میں ایک یہودی کے کام پر گیا ہوا تھا، تو بیوی کہنے لگی کہ آخر بادشاہ کی خدمت ترک کرکے تم دوسرے کی خدمت کیوں کرتے ہو؟ پھر اس کو اشرفیوں کا واقعہ سنایا، جس کو سن کر وہ مرد مومن روتے روتے بے ہوش ہوگیا اور جب اس کو ہوش ہوا تو بیوی سے کہنے لگا، افسوس کہ میں نے بادشاہ دو جہاں کی خدمت کا حق اپنے اوپر لازم نہ کیا! اس کے بعد اس شخص نے عورت کو چھوڑ دیا اور پہاڑوں پر چلا گیا، جہاں خدا کی عبادت ہی میں مصروف رہ کر اس کا انتقال ہوگیا۔ حق تعالیٰ اس پر اپنا رحم فرمائے۔ آمین!
حاصل… سچ ہے! خدا کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں ہے، وہ بندے کو اس کی عبادت کا صلہ ضرور دیتا ہے۔ اگرچہ بعض دفعہ کسی حکمت کی بنا پر اس کے یہاں دیر ہو جاتی ہے، لیکن بہرحال اندھیر پھر بھی نہیں، وہ اپنے بندوں کو دیتا ضرور ہے، حق تعالیٰ ہم سب کو صبر و شکر کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العلمین۔