پیٹرول بم گرنے سے فرانس میں عوامی بغاوت کا خدشہ

ایس اے اعظمی
پیٹرول بم گرنے سے فرانس میں عوام کی جانب سے بغاوت کا خدشہ ہے۔ دار الحکومت پیرس سمیت ملک بھر میں ہونے والے پُرتشدد احتجاج میں تین لاکھ سے زائد فرانسیسی شہری شامل ہو چکے ہیں، جن میں وائٹ کالر طبقہ قابل ذکر ہے۔ لاکھوں مظاہرین نے تیسرے ہفتے بھی اپنے احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس سے پیرس سمیت ملک مفلوج ہوگیا ہے۔ مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے کی گئی شیلنگ سے دو شہری ہلاک، جبکہ عوامی رد عمل میں پولیس کے اب تک 200 اہلکار زخمی ہو چکے ہیں۔ جبکہ زخمی ہونے والے عام شہریوںکی تعداد 1 ہزار سے زائد ہے۔ جلائو اور گھیرائو کے باعث کروڑوں یوروز کا نقصان ریکارڈ کیا گیا ہے۔ گزشتہ سے پیوستہ روز جاری مظاہروں کی نئی لہر میں 100 سے زیادہ کاریں جلا کر راکھ کردی گئیں۔ سینکڑوں دکانیں اور اسٹال تباہ کردیئے گئے۔ ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب مظاہرین نے پولیس رائفل اور دیگرساز و سامان کو لوٹ لیا ہے۔ اتوار کو پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے آنسو گیس کے 5 ہزار گولے چلائے۔ 60 گاڑیوں کی مدد سے مظاہرین پر رنگ دار ٹھنڈا پانی پھینکا گیا اور مرچوں والے بموں کا جم کر استعمال کیا گیا، لیکن مظاہرین پیچھے نہیں ہٹے اور پورا پیرس رات گئے تک میدان جنگ بنا رہا۔ دار الحکومت پیرس میں اتوار کو متعدد سنیما ہالز اور گیلریز بند رہیں جبکہ آئفل ٹاور کو جانے والے والے راستے مسدود رہے جس سے غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد مایوس ہوگئی۔ فرانسیسی مظاہرین کو صدر ماکرون نے دھمکایا ہے کہ سیکورٹی کیمروں کی مدد سے شناخت کرکے تمام پر تشدد مظاہرین کو گرفتار کیا جائے گا اور ان کیخلاف قرار واقعی قانونی کارروائی کی جائے گی۔ 35 ریلوے اسٹیشنوں اور میٹرو اسٹیشنوں کی بندش نے لاکھوں شہریوں کو گھروں پر مقید کردیا۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان مسلسل جھڑپوں کے بعد ایک ہزار سے زائد مظاہرین گرفتار کئے جاچکے ہیں، لیکن مظاہروں اور پر تشدد احتجاج میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ مظاہرین نے پیرس کی بیشتر شاہراہوں اور موٹر ویز کو بند کردیا ہے، جس پر فرانسیسی انتظامیہ نے مظاہرین کو متنبہ کیا ہے کہ جتنی جلد ہو مظاہرین احتجاج ترک کردیں۔ تازہ مظاہروں اور پر تشدد احتجاج میں 20 فرانسیسی پولیس افسران اور91 مظاہرین شدید زخمی ہوئے ہیں، جبکہ پیرس پولیس ڈپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے 100سے زئادہ ڈپارٹمنٹل اسٹورز کو لوٹ لیا ہے اور سینکڑوں فلیٹس اور گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کو نقصان پہنچایا ہے، جس کی وجہ سے متعدد مقامات پر مظاہرین کے حملوں سے بچائو کیلئے پیٹرول پمپس کو بند کردیا گیا ہے۔ فرانسیسی حکومت نے حالیہ ایام میں پیٹرول کی قیمت 1.47 یورو فی لٹر اور ڈیزل کی قیمت 1.48 یورو فی لٹر مقرر کی ہے جو پاکستانی کرنسی میں بالترتیب 232 روپے 19 پیسہ 233 روپے 70 پیسہ بنتے ہیں جس سے فرانسیسی عوام اور کاروباری طبقہ کی چیخیں نکل گئی ہیں لیکن دوسری جانب امیر طبقہ کو نوازنے کیلئے ماکرون حکومت نے ’’دولت ٹیکس‘‘ کا مکمل خاتمہ کردیا ہے جس سے عام آدمی اور متوسط طبقہ شدید مشتعل ہے۔ فرانسیسی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر پیٹرول کی مصنوعات پر عائد نئے ٹیکسوں کی شرح کم نہیں کرے گی کیوں ہمیں حکومت چلانے کیلئے پیسوں کی ضرورت ہے۔ اس منظر نامہ کے بارے میں فرانسیسی میڈیا نے تسلیم کیا ہے کہ ایک سال کی مدت میں فرانسیسی حکومت نے ڈیزل اور پیٹرول کی قیمتوں میں 21 بار اضافہ کیا ہے، جس سے عوامی رائے عامہ فرانسیسی صدر ماکرون کیخلاف ہوگئی ہے اور عوام نے ان کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے لیکن فرانسیسی صدر ماکرون نے مستعفی ہونے سے انکار کیا ہے اور عوام کیخلاف کریک ڈائون کا عندیہ دیا ہے جس سے عوام مزید بھڑک اُٹھی ہے۔ ادھر ایک رپورٹ میں فرانسیسی جریدے دی لوکل نے بتایا ہے کہ فرانسیسی صدر مارکرون نے اس امر کا عندیہ دیا ہے وہ ملک میں بے چینی اور مظاہروں کو برداشت نہیں کریں گے اور ایمرجنسی کے نفاذ پر غور کررہے ہیں۔ ایمانوئیل ماکرون نے جی 20 کانفرنس میں صحافیوں کو بتایا ہے کہ مظاہرین پر امن احتجاج کریں لیکن جلائو گھیرائو اور لوٹ مار کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پیلے رنگ کی شرٹ پہنے ہزاروں مظاہرین کا موقف ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ بالکل بھی برداشت نہیں کیا جائے گا اور اگر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اتنا ہی ناگزیر ہے تو تنخواہوں میں بھی اسی قدر اضافہ کیا جائے۔ فرانسیسی میڈیا نے بتایا ہے کہ ملک بھر میں پُر تشدد مظاہروںاور احتجاج میں ایک لاکھ سے زیادہ مظاہرین ملوث ہوئے ہیں، جو پیٹرول ٹیکسوں میں اضافہ سے نالاں ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ پیٹرول قیمتوں میں اضافہ واپس لیا جائے۔ پیرس میں موجود ایک خاتون شن تال کہتی ہیں کہ ان کی ماہانہ تنخواہ 1,700 یورو ہے، لیکن پیٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ نے ان کو پریشان کردیا ہے اور ہر ماہ ان کا گھریلو بجٹ آؤٹ ہوجاتا ہے، لہٰذا وہ بچوں کی کفالت کیسے کریں اور گھریلو اخراجات کو کس طرح پورا کریں۔ برطانوی میڈیا نے بتایا ہے کہ فرانس میں 17 نومبر سے شروع ہونے والے مظاہروں میں اب تک دو افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور سینکڑوں شددی زخمی ہیں۔ دیگر شہروں کے فرانسیسی باشندوں کا کہنا ہے کہ وہ مظاہروں کی حمایت کرتے ہیں، لیکن توڑ پھوڑ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایک مقامی استاد فرانکوئیس زولیداں کا کہنا ہے کہ روز بروز ہماری قوت خرید کم ہوتی جارہی ہے جس سے ہم نان شبنہ کے محتاج ہوئے جاتے ہیں۔ حکومت مہنگائی اور بالخصوص پیٹرول کی قیمتیں کم نہیں کر رہی ہے بلکہ بڑھا رہی ہے، جس سے بنیادی ضرورت سے جڑی تمام اشیا مہنگی ہوتی جارہی ہیں۔

Comments (0)
Add Comment