سدھارتھ شری واستو
دور حاضر میں سفر کی جدید اور تیز رفتار ترین سہولیات کے باوجود ایک آئرش نوجوان نے پیدل سفر کرتے ہوئے بغیر کسی زاد راہ کے 6 ہزار کلومیٹر کا سفر اور 13 ممالک کی سیاحت مکمل کرکے عالمی ریکارڈ بنا لیا ہے۔ ایپل کمپنی کے انجینئر وان درکلوک نے یہ سفر اپنے والد کی نصیحت پر کیا۔ وان کو شکوا تھا کہ دنیا بد ترین انسانوں کی جگہ ہے اور حسد، جلن اور بغض سے بھری اس دنیا میں کسی سادہ طبیعت انسان کا گزارا نہیں۔ لیکن اس کے والد نے سمجھایا کہ دنیا اچھے انسانوں اور مہربانوں سے بھری ہوئی ہے اور اسے نصیحت کی کہ انسانوں کو پرکھنا ہے تو دنیا کے سفر پر بغیر زاد راہ کے نکلو۔ آئرش ٹائمز نے بتایا ہے کہ وان درکلوک نے صرف پاسپورٹ اپنے ساتھ لیا اور دو تھیلے جن میں جوگرز، دو جوڑے لباس، ٹوتھ پیسٹ، برش اور چھوٹا سا خیمہ تھا، کندھے پر لادے اور گھر سے پیدل نکل پڑا۔ مسافت طے کرتے ہوئے وان درکلوک جہاں جہاں پہنچتا وہاں مقامی افراد اس کی کہانی سن کر حیران رہ جاتے اور اس کی میزبانی کیلئے دیدہ و دل فرش راہ کر بیٹھتے۔ آئر لینڈ، ہالینڈ، فرانس، جرمنی، پولینڈ، یوکرائن، رومانیہ، اسپین، اٹلی، بلغاریہ، ترکی، لبنان اور اسرائیل کی سیاحت کرنے والے وان درکلوک نے بتایا ہے کہ اسے سب سے زیادہ محبت ترکی کے باشندوں سے ملی۔ آئرش ٹائمز سے گفتگو کے دوران اس کا کہنا تھا کہ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اگر جیب میں پیسے نہ ہوں، تب بھی اس کا سفر آگے بڑھ سکے گا؟ وان کا کہنا تھا کہ وہ بغیر زاد راہ یعنی خوراک اور رقم لئے بغیر سفر کرتا تھا اور اوسطاً ایک دن میں پیدل چل کر 50 سے 100 کلومیٹر کا سفر کرلیا کرتا تھا۔ آئرش نوجوان کا کہنا تھا کہ اس کے والد ہمیشہ کہا کرتے ہیں کہ یہ دنیا اچھے انسانوں سے بھری پڑی ہے اور اس کا اندازہ اس بات کیا جائے کہ آپ بغیر زاد راہ کے سفر کریں اور منزلیں طے کریں۔ اور پھر دیکھیں کہ آپ کو کیسے کیسے مہربانوں اور با اخلاق لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ وان درکلوک نے بتایا ہے کہ اس نے اپریل کے مہینے میں اس سفر کا آغاز کیا جب یورپی ممالک میں موسم اور درجہ حرارت معتدل ہوتا ہے۔ اس نے اپنے ساتھ دو بیگز لئے جس میں ضروری کپڑے اور جوتے سمیت ایک خیمہ تھا۔ وان کہتا ہے کہ اس نے طے کیا ہوا تھا کہ وہ پانی کے سوا خور و نوش کی کوئی چیز ساتھ نہیں رکھے گا، اور نہ ہی پیسے۔ تاکہ اس بات کا پتا چلایا جاسکے کہ مسافروں کی مہمان نوازی کیلئے لوگ کس طرح کا برتائو کرتے ہیں؟ 6 ہزار کلومیٹر کے سفر کے دوران اپنے رات کے سفر کے بارے میں وان درکلوک کا کہنا تھا کہ اس کے پاس اپنے میزبانوں کی مہمان نوازی اور مہربانی بیان کرنے کیلئے الفاظ نہیں ہیں۔ ہر علاقے کے لوگوں نے اسے اپنی محبت سے نوازا جبکہ پانی سمیت خوراک اور رات گزارنے کیلئے چھت بھی فراہم کی۔ وان درکلوک نے متعدد ممالک کے باشندوں کی مہمان نوازی بیان کرتے ہوئے بتایا کہ ان کو تقریباً تمام میزبانوں کی جانب سے ڈالر اور یوروکی آفر بھی کی گئی کہ وہ زاد سفر کی آسانی کیلئے ان سے کچھ نقد عطیات وصول کرے۔ لیکن وان درکولک نے شکریہ کے ساتھ انکار کردیا اور اپنا سامان اُٹھا کر اگلی منزل کی جانب چل پڑا ۔ وان نے بتایا ہے کہ سب سے اچھا طرز عمل ترک مسلمانوں کا رہا، جو دنیا کے سب سے زیادہ مہربان میزبان ہیں۔ ترکی جنت نظیر خطہ ہے اور یہاں کا سفر اس کی زندگی کا یادگار سفر ہے۔ وان درکلوک نے بتایا کہ جب بھی اس کو سفر میں بھوک لگتی تو وہ مقامی افراد سے اپنا تعارف کراتا، جس پر وہ فوری مدد کیلئے تیار ہوجاتے اور کھانے سے لے کر تمام ضروریات پوری کرنے اور حتیٰ کہ رقم کی فراہمی کیلئے اصرار کرتے۔ اس کا کہنا ہے کہ سفر کے دوران کئی بار ایسا ہوا کہ وہ کسی شہر کی مارکیٹ میں گیا اور خوراک کے پیکٹس الٹ پلٹ کر دیکھتا رہا۔ اس کا یہ انداز لوگوں کو اس کی جانب متوجہ کردیتا تھا اور لوگ استفسار کرتے کہ وہ غذائی پیکٹ خرید کیوں نہیں رہا؟ تو وہ ان کو بتاتا کہ وہ کوئی رقم لئے بغیر ہی عالمی سیاحت کو نکلا ہے۔ یہ سن کر وہ اسے خوراک کے پیکٹ اور جوس کے ڈبے تحفے میں دیتے۔ آئرش نوجوان کا کہن اہے کہ وہ 2020ء میں ایسا ہی ایک اور سفر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے جس میں وہ کم از کم پچاس ممالک کی سیاحت کرے گا۔