افغان طالبان نے حملے تیز کرنے کی پلاننگ کرلی

محمد قاسم
امریکہ نے موسم سرما میں طالبان کو جنگ بندی پر راضی کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، تاہم افغان طالبان نے افغانستان میں امریکی موجودگی تک نہ صرف جنگ بندی ختم نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، بلکہ حملے تیز کرنے کی پلاننگ بھی کرلی۔ دوسری جانب افغانستان میں 2018ء اب تک خونریز ترین سال تصور کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ 17 برسوں کے دوران رواں سال اکتوبر اور نومبر کے مہینے میں سب سے زیادہ تقریباً چار ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئیں، جبکہ ہزاروں افراد زخمی ہوئے۔ افغان صدر نے 2018ء میں تیس ہزار سے زائد افغان فوجی اہلکاروں کی ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے، جس سے افغانستان میں نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر یہ جنگ کب تک جاری رہے گی۔ جبکہ طالبان کا کہنا ہے کہ ان تمام ہلاکتوں کا ذمہ دار امریکہ ہے۔ جب تک امریکہ افغانستان میں ہے، جنگ جاری رہے گی۔
’’امت کو‘‘ دستیاب معلومات کے مطابق افغانستان میں گزشتہ سترہ برسوں میں امریکہ اور طالبان کے درمیان لڑائی میں اب تک ہزاروں افراد مارے گئے ہیں۔ جہاں ہلاک شدگان میں تعلق نیٹو ممالک کے اہلکاروں لے کر افغان سیکورٹی اہلکاروں تک ہے، وہیں عام شہری اور طالبان جنگجو بھی شہید ہوئے۔ تاہم ان سترہ برسوں میں 2018ء اب تک خونریز ترین سال تصور کیا جارہا ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ نومبر کے آخر تک افغانستان میں تقریباً تیس ہزار سیکورٹی اہلکار مارے گئے ہیں۔ تاہم انہوں نے عام شہریوں کے بارے میں بات نہیں کی، جبکہ عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ علاوہ ازیں اربوں ڈالر اس جنگ کی نذر بھی ہو رہے ہیں۔ رواں سال اکتوبر اور نومبر کا مہینہ ہلاکت خیزی سے بھر پور رہا۔ ان دو مہینوں میں تقریباً چھ سو کے قریب چھوٹے بڑے حملے ہوئے، جس میں داعش، طالبان، امریکہ اور افغان فوجیوں کی کارروائیاں شامل ہیں۔ ماہ اکتوبر میں چار ہزار سے زائد افراد مارے گئے، جن میں افغان سیکورٹی اہلکار، امریکی و نیٹو فوجی، طالبان جنگجو اور عام شہری شامل ہیں۔ جبکہ آٹھ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ ہلاک اور زخمی ہونے والوں میں بڑی اکثریت عام لوگوں کی ہے۔ دوسری جانب طالبان کی جانب سے نہ صرف کئی بڑے حملے کئے گئے بلکہ غزنی، لوگر اور فاریاب کا محاصرہ بھی کیا گیا۔ قندھار میں ہونے والے حملے میں افغان صوبہ قندھار کے پولیس چیف جنرل رازق اور انٹیلی جنس چیف سمیت کئی اعلیٰ عہدیدار مارے گئے۔ گورنر قندھار اب بھی زیر علاج ہیں۔ اسی طرح کئی صوبوں میں امریکی فوج پر بھی کئی بڑے حملے ہوئے، جن میں غزنی، ہلمند، کابل اور فاریاب شامل ہیں۔ رواں برس اکتوبر کی بہ نسبت نومبر کے دوران گیارہ فیصد حملوں میں کمی دیکھی گئی، تاہم ہلاکتوں میں کوئی کمی نہیں آئی، بلکہ اضافہ ہوا ہے۔ نومبر میں دو ہزار سے زائد افراد مارے گئے، جبکہ آٹھ ہزار سے زائد زخمی ہیں۔ ادھر افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان 2018ء میں مذاکرا ت میں تیزی آئی ہے اور 2019ء میں ان مذاکرات کے نتیجے میں امریکہ اور طالبان کے درمیان معاہدے کی امید کی جارہی ہے۔ تاہم افغان طالبان نے دبائو بڑھا دیا ہے۔ افغان حکومت مسلسل طالبان کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار قرار دے رہی ہے۔ جبکہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ سترہ برسوں میں جتنا نقصان ہوا اور جتنی ہلاکتیں ہوئیں، چاہے وہ افغان طالبان جنگجوئوں کی ہیں، عام شہریوں کی، حکومتی اہلکاروں کی یا نیٹو ممالک کی۔ ان تمام کی ذمہ داری امریکہ پر عائد ہوتی ہے۔ امریکہ نے افغانستان پر ناجائز قبضہ کر کے افغان عوام کے خلاف ان کی مرضی کے خلاف حکومت مسلط کی ہے، جو مسلسل افغان عوام کے ساتھ دھوکا کر رہی ہے۔2001ء سے لے کر 2018ء تک افغانستان میں کٹھ پتلی حکمرانوں نے صرف اپنے خاندانی کاروبار کو بڑھایا، جبکہ افغان عوام کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ ان ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ جب تک امریکی افواج افغانستان میں موجود ہیں، جنگ جاری رہے گی۔ کابل حکومت اور امریکی اس غلط فہمی میں نہ رہیں کہ امریکہ اور افغان طالبان کے مذاکرات شروع ہوتے ہی جنگ ختم ہو جائے گی یا اس میں کمی آ جائے گی۔ ذرائع کے بقول طالبان نے اس سال سردیوں میں حملے تیز کرنے کی پلاننگ کرلی ہے۔ گزشتہ برسوں کے برعکس اس سال سردیوں میں بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔ گزشتہ سردیوں میں افغان طالبان لڑائی میں کمی کر دیتے تھے اور سردیوں میں اسلحہ اور دیگر ساز و سامان جمع کرتے تھے۔ طالبان ذرائع کے مطابق اس وقت افغان طالبان کا کنٹرول صرف دیہات کے علاقوں تک تھا، جہاں پر سردیوں میں ان کو جنگ جاری رکھنا مشکل ہو جاتا تھا۔ چونکہ اب افغان طالبان کا قبضہ ساٹھ فیصد علاقے سے بڑھ گیا ہے اور اس میں کئی بڑے شہر بھی شامل ہیں، جبکہ وسطی اور مشرقی افغانستان کے اہم حصوں پر بھی طالبان کا کنٹرول ہے۔ لہذا طالبان سردیوں میں اس جنگ کو جاری رکھیں گے۔ دوسری جانب ’’امت‘‘ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کی خواہش ہے کہ طالبان کو موسم سرما میں جنگ بندی پر راضی کرلیا جائے، جس کیلئے اس نے کوششیں شروع کر دی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان کے لئے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے افغان طالبان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپریل تک امریکہ کے ساتھ معاہدہ کرلیں۔ تاہم افغان طالبان جنگ بندی پر نہ صرف یہ کہ تیار نہیں، بلکہ انہوں نے امریکی موجودگی تک جنگ جاری رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ افغان سرزمین اور جغرافیہ کا مطالعہ رکھنے والے ماہرین کے مطابق افغانستان میں جنوری سے لے کر مئی تک برف باری ہوتی ہے اور مئی کے بعد بہار شروع ہو جاتی ہے۔ جون میں راستے کھل جاتے ہیں اور جولائی میں پہاڑی راستے بھی تقریباً صاف ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ سردیوں کے اندر اندر طالبان کے ساتھ کسی معاہدے پر پہنچ جائیں، جس میں ان کا پہلا مطالبہ جنگ بندی کا ہے۔ جبکہ طالبان کو اس بات کا ادراک ہے کہ وہ جتنا دبائو بڑھائیں گے، اتنے ہی ان کے مطالبات میں وزن زیادہ پیدا ہوگا۔

Comments (0)
Add Comment