پہلی قسط
محمد فاروق
محمد فاروق اسلامی جمیعت طلبہ کے سابق رہنما ہیں۔ برطانیہ میں مقیم محمد فاروق نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے نام سے شائع کی ہے۔ جو نہ صرف ایک عہد کی آئینہ دار ہے، بلکہ اس میں شریعت و تصوف کے امتزاج کی لطافت بھی جابجا ملتی ہے۔ قارئین کیلئے ’’غمزۂ خوں ریز‘‘ کے منتخب ابواب پیش کئے جارہے ہیں۔
اس وقت ہم چاہتے ہیں کہ ہم صوفیائے کرام کے پاک زندگیوں میں ان کے کچھ بہت نمایاں کارناموں سے احباب کو آگاہی دیں، تاکہ معلوم ہو سکے کہ تصوف و خانقاہ کا ادارہ ہماری عملی زندگی پر ایک روحانی اور غیر محسوس انداز میں کس طرح اثرانداز ہے اور ہماری روزمرہ کی زندگی کس حد تک ان صوفیا کے تگ و تاز کا نشانہ ہے۔ یہ بظاہر وہ دوڑ دھوپ ہے، جو انسانی نظر کے احساس سے دور و ماورا ہے۔ مگر اس کے بالواسطہ مظاہرے ہم اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھتے بھی ہیں اور محسوس بھی کرتے ہیں۔
ہم ان محیرالعقول ’’حادثات‘‘ کا ذکر صرف ان واقعات تک محدود رکھتے ہیں، جن کے یا تو ہم بنفس نفیس شاہد و گواہ ہیں، یا ہم کو ان کی تفصیل ایسے قابل اعتماد ذرائع سے پہنچی ہے کہ ان کی سچائی ہر شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ ہم ان واقعات کا تذکرہ خاص کر ان جدید تعلیم یافتہ احباب کے ’’تصور تصوف‘‘ کو سامنے رکھ کر کر رہے ہیں، جو ان صوفیا کو اللہ کی طرف سے عطا کردہ غیر معمولی طاقت و صلاحیت کو نگاہ کم سے دیکھتے ہیں اور انہیں بے وقعت سمجھ کر انتہائی لاابالی پن سے حقارت کے ساتھ نظرانداز کرتے ہیں۔
میں بنگال نہیں دوں گا:
ہم آن واحد میں ایک سفید ریش بزرگ کے سامنے کھڑے تھے۔ لمبا قد، کسی حد تک پرانے مگر صاف ستھرے کپڑے، پرانے اور پھٹے ہوئے پشاوری چپل پائوں میں، بہت ہی چمکدار اور عقابوں کی شکل والی بڑی بڑی آنکھیں، گول چہرہ، منہ کے چند دانت نکلے ہوئے، بارعب آواز، ہلکا اور پتلا جسم، لمبے لمبے ہاتھ، ملنے کا پرجوش و پرتپاک انداز، باتوں میں حد درجہ اعتماد، جو بھی کہتا ہے جیسے آنکھوں دیکھا حال پورے وثوق سے بیان کر رہا ہے۔ ہر ہر لمحے بڑی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک میں اضافہ ہوتا ہے۔ میرے ساتھی نے پوچھا:
’’کاکا جی…! آپ لوگوں کا اختلاف اپنی جگہ۔ ہمارے لیے آپ دونوں اسی طرح قابل عزت و احترام ہیں… اور میں اسی طرح آپ سے دعائوں کا طالب ہوں… جس طرح پہلے تھا۔ گزارش یہ ہے کہ اختلاف کس چیز پر ہوا؟… اور کیوں ہوا؟‘‘۔
’’اللہ تمہاری عزتوں اور برکتوں میں اضافہ کرے۔ آپ کو معلوم ہوگا۔ میں نے تو آج تک اپنے لیے کچھ طلب ہی نہیں کیا۔ مسلمانوں کے درد میں گھلتا ہوں۔ میں بنگال دینے کے حق میں نہیں تھا۔ میں کسی بھی طرح ہندو بنیے کو اپنی زمین دینے کے لیے تیار نہیں تھا۔ میں نے ان سب سے پہلے ہندوستان بابا جی سے الگ سا مشورہ بھی کیا تھا۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ وہ اس خاکسار کی کسی بات کو ٹالتا نہیں۔ انہوں نے مجھ سے وعدہ بھی کیا تھا۔ اس کے بعد مجھے دوسرے کاموں سے فرصت نہیں ہوئی۔ میں موجود نہیں تھا۔ یہاں ہمارے اس ’’صاحب‘‘ نے میرے پیچھے ہندوستان بابا کے کان بھر دیئے تھے۔ دوسری طرف آپ تو اس ’’نائی‘‘ کو جانتے ہیں نا… ہاں… اس نائی کے بچے کو ’’اسی‘‘ نے میرے خلاف کھڑا کیا تھا۔ مجھے آخری میٹنگ کی جب خبر ہوئی، اس میں جیلان کا غوث بھی آیا تھا۔ یہ سب جمع ہوئے تھے۔ میں اس وقت بہت دور تھا۔ بڑی مشکل سے بھاگ کر پہنچا۔ انہوں نے بات ’’آگے‘‘ پہنچانے سے پہلے آخری مشورہ شروع کیا تھا اور بنگال دینے کا فیصلہ کر دیا تھا۔ ان سب نے کہا، ہم بنگال دے رہے ہیں۔ میں اڑ گیا۔ صاف کہا… میں بنگال نہیں دوں گا… لیکن جب یہاں گھر کے اس دشمن نے مخالفت کی۔ ادھر اس نائی کے بچے نے بھی زور لگایا۔ یہ سب ایک ہو گئے۔ انہوں نے بنگال دینے کا فیصلہ کیا۔ بنگال دے دیا۔ میں اسی وقت میٹنگ سے باہر آیا۔ قسم اٹھائی کہ ’’اس‘‘ کی تو کبھی شکل نہیں دیکھوں گا…، ہاں… میں نے اس وقت ان سب کے سامنے کہا تھا کہ… بچو… میں تم اور تمہارے ان مہروں کے ساتھ دیکھوں گا۔ اس مجیب کے بچے کو تو میں نے وہ انجکشن لگایا ہے… کہ اس کی پوری نسل یاد رکھے گی۔ اب خون بہتا ہے… اور یہ بہتا رہے گا۔ اب ہے ان میں غیرت؟ اب جاکر سنبھال لیں نا… ادھر ہندوستان بغلیں بجا رہا ہے… ادھر بنگال میں حال یہ ہے…!
میں نے کہا تھا میں بنگال نہیں دوں گا۔ میں بنگال نہیں دوںگا۔ میں بنگال نہیں دوں گا…!‘‘۔
اے میرے خدا… یہ بابا جی…! اور… بنگال؟
’’گھر کا دشمن‘‘ کون تھا؟ نائی کون تھا؟ اسے کس نے کاکا جی کے خلاف کس مقصد سے کھڑا کیا تھا…؟ ہندوستان باباجی کون تھا؟ بنگال کے دینے اور نہ دینے کی کہانی کیا تھی؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود یہ کاکا جی، جو بنگال نہ دینے پر اصرار کر رہا تھا، کون تھا…؟ ہم ان سوالات کے جوابات ضرور دے رہے ہیں مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ احباب ان سوالات کے جوابات کو سمجھنے کی خاطر ان کے پیچھے موجود اس پورے پس منطر کی آگاہی حاصل کر لیں۔
یہ میرے اسکول کی طالب علمی کا زمانہ تھا۔ ہم فیملی کے ساتھ، میرے والد کی والئی سوات کی سرکاری ملازمت، کے سلسلے میں پہلے علاقہ چغزئی بونیر اور اس کے بعد، بونیر سلارزئی میں رہ رہے تھے۔ شروع میں ہمیں سوات میں اپنے آبائی گائوں، جو منگورہ شہر کے قریب ہے، اپنے باقی ماندہ رشتہ داروں کے بارے میں کم ہی کچھ معلوم ہوتا تھا۔ سلارزئی آنے کے بعد مجھے پہلی بار معلوم ہوا کہ میرے والد کے بعد دوسرے نمبر پر میرے چچا جان ’’پیر آف شل بانڈی‘‘ بونیر کے مریدوں میں سے ہیں اور ان کے ہاں اس قدر مقبول ہیں کہ پورے سوات کے مریدان کے امیر بھی ہیں۔ اس طرح مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ میرا ایک ماموں، جو پشاور میں فاٹا ڈیولپمنٹ کارپوریشن میں ڈائریکٹر منرلز کے عہدے پر فائز تھے وہ بھی، شل بانڈی بابا جیؒ کے چہیتے مریدوں میں سے ہیں۔ میرا اپنا معاملہ یہ تھا کہ سید مودودیؒ کی کتابوں سے ابتدائی شناسائی حاصل کر لی تھی۔ محترم حسین احمد کانجو، جو بعد میں صوبائی وزیر بنے، میرے انتہائی معزز و محترم اساتذہ میں سے تھے۔ ان کے ساتھ ہی اس وقت کے پرائمری اسکول ٹیچر محترم شمس الرحمن صاحب، جو بعد میں ایک معروف وکیل بنے اور انتہائی قابل قدر، ہم سب کے استاد، عالم دین اور رکن جماعت اسلامی جناب میر افضل خان صاحب کی خصوصی سرپرستی اور محبتوں کی سوغات ہر وقت میری تواضع خاطر کے لیے دستیاب رہی۔ عقیدۂ توحید پر غیر معمولی اور Uncompromising Attitude، پیری مریدی جیسی بلا سے کافی محفوظ فاصلے پر رہنا اور کسی خانقہی نظام کے ہائے و ہو میں ذکر و اذکار کی ’’خاک بازی‘‘ کے علی الرغم، نعرۂ شبیری کے ساتھ وسعت افلاک میں تکبیر مسلسل بلند کرنے کے ہنر سے نئی نئی آشنائی پائی تھی۔ خاندان میں ایک ماموں اور ایک چچا کے بارے میں یہ اطلاع، کہ وہ باقاعدہ ایک پیر کے مرید ہیں، میرے لیے اچنبھے کی بات تھی۔ گھرانے میں اس سے پہلے اور بعد میں بھی، پیری مریدی کا کوئی سلسلہ نہیں تھا۔ اس کے باوجود کہ ہمارا گھرانہ سید علی ترمذیؒ، المعروف پیر بابا، مدفن پاچاکلے بونیر سے تعلق رکھتا ہے۔ بونیر کے بجائے ہم سوات کے سید ہیں۔ یہ ناچیز خالص سیدوں کے خاندان سے ہے، جس کا باقاعدہ تحریری شجرۂ نسب آج بھی محفوظ ہے۔ یہ سلسلہ حسینی شاخ کے سیدنا علی مرتضیؓ سے ٹھیک 42 ویں پشت میں جا ملتا ہے۔ لیکن حضرت اقبالؒ نے ’’جواب شکوہ‘‘ میں یہ یاد دہانی جو کرائی تھی کہ:
’’تھے تو آباء وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو؟‘‘
…تو ناچیز نے کبھی اس خاندانی تفاخر کو پر کاہ برابر اہمیت دینے کی جرأت نہیں کی۔ عرض یہ کر رہا تھا کہ یہ ناچیز جو خود اس وقت تک خاندان کے قریبی افراد، خاص کر گھر اور ماحول میں ’’مودودی‘‘ کا نام کما چکا تھا، کسی ایسی محفل یا گفتگو کے لیے تقریباً ناموزوں (unfit) تھا، جس میں کسی بھی حوالے سے پیری مریدی کا موضوع زیربحث ہو۔ (جاری ہے)