رہائشی علاقوں میں گیسٹ ہائوسز خاتمے سے10ہزار افراد بیروزگار ہونگے

عظمت علی رحمانی
کراچی کے رہائشی علاقوں میں واقع گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز کو ختم کرنے سے 10 ہزار سے زائد افراد بے روزگار ہو جائیں گے۔ حکومت کو مختلف ٹیکسز کی مد میں 10 ارب روپے کے نقصان کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ شہر میں قائم 9 بڑے فائیو اور فور اسٹار ہوٹلز کے ایک ہزار 895 کمروں میں بیرون ممالک سے آنے والے یومیہ ہزاروں مہمانوں کو ٹھہرانے کی گنجائش ناکافی ہے۔ بوہرہ برادری کا اجتماع، دفاعی نمائش سمیت دیگر اہم مواقع پر شہر کے246 رجسٹرڈ گیسٹ ہاؤسز ہی دو ہزار 430 سے زائد کمروں کی صورت میں رہائشی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے مئیر کراچی وسیم اختر، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) کے چیئرمین افتخار احمد قائمخانی اور دیگر حکام کو رہائشی علاقوں کی زمین کا کمرشل استعمال ختم کر کے 15 روز میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس عدنان الکریم میمن نے رہائشی علاقوں میں قائم کمرشل تعمیرات ختم کرانے سے متعلق درخواست کی سماعت کی۔ عدالت نے مئیر کراچی وسیم اختر، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) سمیت دیگر اداروں کو مشترکہ ایکشن لینے کا حکم دیا کہ رہائشی پلاٹس کا کمرشل استعمال ختم کیا جائے اور اگر اس سلسلے میں پولیس کی مدد اور معاونت درکار ہے تو وہ بھی لی جائے۔ پولیس سے کام نہیں بنتا تو ہم رینجرز دیتے ہیں، لیکن تعمیرات ختم کرائیں۔ ایس بی سی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تجاوزات ختم کرنا سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ پبلک لینڈ پر ایس بی سی اے کارروائی نہیں کر سکتا۔ جس پر جسٹس عرفان سعادت کا کہنا تھا کہ یہ تجاوزات نہیں غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ پبلک لینڈ پر اگر غیر قانونی کام ہو رہا ہے تو ایس بی سی اے کے ہاتھ پائوں کٹ جاتے ہیں؟ جس ادارے سے مدد لینی ہے لیں اور یہ تعمیرات ختم کرائیں۔ ایس بی سی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کچھ علاقوں میں لائنز ایریا ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کارروائی کا اختیار ہے۔ لائنز ایریا ڈویلپمنٹ اتھارٹی رہائشی علاقوں کا کمرشل استعمال بند کرتی ہے، لوگ دوبارہ کام شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارا کام دکانیں بند کرانا ہے، توڑنا نہیں۔ اس موقع پر کمرہ عدالت میں موجود درخواست گزار سید عطاء اللہ شاہ ایڈووکیٹ نے کہا کہ لوگ بااثر ہیں، کوئی بھی ادارہ ان کے خلاف کارروائی نہیں کرتا۔ سال 2012ء سے عدالتی احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا جارہا۔ فریقین کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔ عدالت نے درخواست گزار کے دلائل پر 15 روز بعد مزید کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ اس کے فوراً بعد سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے رہائشی علاقوں میں قائم گیسٹ ہاؤسز، ہوٹلز، دفاتراور دیگر کو نوٹسز جاری کئے گئے کہ انہیں 3 روز کا وقت دیا جارہا ہے، جس میں وہ اپنی عمارت کو کمرشل ڈیکلیئر کرائیں، بصورت دیگر ان کو بند کرایا جائے گا۔
مذکورہ اعلان اور نوٹسز کے بعد خدشہ ہے کہ شہر میں واقع ہوٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کو بند کرنے سے حکومت اور انتظامیہ کو بھی شدید مشکلات کو سامنا کرنا پڑے گا۔ شہر کے رہائشی علاقوں سے گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز کو ختم کرنے سے جہاں بیرون ممالک کے سرمایہ کار، تاجر، ملٹی نیشنل کمپنیوں کے افسران، ٹورسٹ، اوورسیز پاکستانیوں سمیت دیگر کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا ہوگا۔ وہیں لگ بھگ 10 ہزار سے زائد افراد بھی بے روزگار ہو جائیں گے، جبکہ اس صنعت سے وابستہ مالکان کو اربوں روپے کا خسارہ ہو گا۔ شہر کے متعدد علاقوں جن میں ایئرپورٹ کے قریب ملیر، ماڈل کالونی، گلستان جوہر، گلشن جمال، گلشن اقبال، محمد علی سوسائٹی، پی ای سی ایچ ایس نرسری، کلفٹن، باتھ آئی لینڈ اور ڈیفنس شامل ہیں، میں لگ بھگ ایک ہزار گیسٹ ہائوسز ہیں۔ ’’امت‘‘ کو معلوم ہوا ہے کہ ملیر اور ماڈل کالونی میں 6 گیسٹ ہاؤسز ہیں، جن میں لگ بھگ 60 سے 100 کمرے ہیں،ا ور یہاں ڈیڑھ درجن سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ گلشن جمال میں ٹوٹل 25 گیسٹ ہاؤس میں 200 سے زائد کمرے ہیں۔ جہاں 100سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ گلستان جوہر اور گلشن اقبال میں بھی 15 سے 20 گیسٹ ہاؤسز میں 150سے زائد کمر ہیں اور 75 سے 80 ملازمین کام کرتے ہیں۔ پی ای سی ایچ ایس نرسری، محمد علی سوسائٹی میں 50 سے زائد گیسٹ ہاؤسز ہیں، جن میں 300 سے 500 تک کمرے ہیں اور جہاں 300 سے زائد ملازمین کام کرتے ہیں۔ باتھ آئی لینڈ، کلفٹن اور ڈیفنس میں ڈیڑھ درجن سے زائدگیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز ہیں، جہاں پر 1200 سے 1500 سو کمرے ہیں اور 500 سے 800 تک کل وقتی اور جز وقتی ملازمین کام کرتے ہیں۔ مذکورہ گیسٹ ہائوسز کے مالکان گیسٹ ہاؤسز اونرز ایسوسی ایشن میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ بھی ایسوسی ایشن میں غیر رجسٹرڈ گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلوں کی تعداد سینکڑوں میں ہے۔246 رجسٹرڈ گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز میں 2 ہزار 430 کمرے ہیں۔ جن کو محکمہ پولیس سندھ کی جانب سے باقاعدہ ہوٹل آئی کے ذریعے براہ راست مانیٹر کیا جاتا ہے۔ یہاں ہر آنے جانے والے کی اطلاع براہ راست پولیس کے پاس جاتی ہے۔ تمام گیسٹ ہاؤس مالکان کے این ٹی این موجود ہیں، جن کے ذریعے ماہانہ لاکھوں روپے ٹیکس کی صورت میں ریونیو جمع کرایا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں گیسٹ ہاؤسز میں پانی، بجلی اور گیس کی بلنگ کمرشل بنیادوں پر کی جاتی ہے۔ رہائشی علاقوں سے مذکورہ گیسٹ ہاؤسز اور ہوٹلز کو بند کرنے سے جہاں ہزاروں افراد بے روزگار ہوں گے، وہیں گیسٹ ہاؤسز و ہوٹلز کی صنعت سے وابستہ رینٹ اے کار کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوگا۔
معلوم رہے کہ شہر میں کاروباری و دیگر سماجی سرگرمیوں کیلئے بیرون ممالک سے آنے والے ہزاروں مہمانوں کو ٹھہرانے کیلئے 9 بڑے فور اور فائیو اسٹار ہوٹلز میں جگہ ناکافی ہے۔ کمروں کے اعتبار سے سب سے بڑا ہوٹل ریجنٹ پلازہ ہے، جس میں 411 کمرے۔ مووان پک میں 400 کمرے۔ پی سی میں 280 کمرے۔ میریٹ میں 220 کمرے۔ آواری میں 160 کمرے۔ بیچ لگژری ہوٹل میں 80 کمرے ہیں، جن میں سے 40 بند ہیں۔ مہران ہوٹل میں 180 کمرے۔ رمادا ہوٹل میں 160 کمرے۔ رمادا کریک میں 44 کمرے ہیں۔ مجموعی طور پر 9 بڑے ہوٹلز میں 1895 کمرے ہیں۔ فور اسٹار میں ریجنٹ، رمادا اور مہران ہوٹل، جبکہ فائیو اسٹار میں آواری، پی سی، مووان پک اور میریٹ شامل ہیں۔ ان میں سے ریجنٹ، مہران، بیچ لگژری کا کمرے کا کرایہ 6 ہزار سے 12 ہزار روپے، جبکہ دیگر کا کرایہ یومیہ 16 ہزار سے 20 ہزار روپے تک ہے۔ جبکہ اس کے برعکس شہر میں 2456 گیسٹ ہاؤسز میں 2430 سے زائد کمرے موجود ہیں، جہاں گزشتہ دنوں آئیڈیاز میں 52 ممالک سے آنے والے مہمان بھی رہائش پذیر رہے ہیں۔
ملیر میں کراچی موٹل کے مالک آفاق احمد ستی کا کہنا ہے ’’ہم حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکس دیتے ہیں۔ کے ایم سی، واٹر بورڈ، کے الیکٹرک، سوئی سدرن گیس سمیت دیگر اداروں کو کمرشل بلنگ کرتے ہیں۔ اس کے باوجود بھی اگر ہم کمرشل نہیں ہیں تو پھر کون ہے‘‘۔ گلشن جمال میں واقع گیسٹ ہاؤس یونین کے صدر وصال خان کا کہنا ہے کہ ’’ہم بیرون ممالک سے آنے والے مہمانوں کو سستے داموں رہائش دیتے ہیں، جس سے ملک کا زر مبادلہ بڑھتا ہے۔ یہاں کمرشل چارجز وصول ہی نہیں کئے جاتے۔ دنیا بھر میں گیسٹ ہاؤس رہائشی ایریاز میں ہی آتے ہیں۔ اگر یہ کمرشل ایریا میں ہوگا تو اس کو ہوٹل ڈیکلیئر کریں گے، اور کمرشل چارجز لیں گے‘‘۔ کلفٹن گیسٹ ہاؤس کے ملک صفدر کا کہنا ہے کہ اس وقت اگر بیرون ممالک سے آنے والے کاروباری افرار، اوورسیز، ملٹی نیشنل کمپنیوں سمیت دیگر سرکاری و غیر سرکاری افسران کی موومنٹ کا اندازہ لگائیں تو اس وقت شہر میں گیسٹ ہائوسز کی کمی ہے۔ اگر اسے بھی ختم کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ حکومت ملک سے سرمایہ کاروں کو بھگا رہی ہے۔ کلفٹن و ڈیفنس جیسے رہائشی ایریا میں بیرون ممالک سے آنے والی ملٹی نیشنل کمپنی کا گیسٹ 3 سے 4 ہزار روپے کی ادائیگی میں 24 گھنٹے رہائش و ناشتہ، وائی فائی سمیت بہترین و سیکور ماحول کی وجہ سے معمولی قیمت دے کر رہائش اختیار کرتا ہے۔ اگر اس کو یہاں سے بھگایا جائے گا تو اس کا مطلب یہاں کاروبار ی صنعت کو کمزور کیا جا رہا ہے۔ نرسری گیسٹ ہاؤس کے مالک یوسف لاکھانی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے پیتھم، کے ایم سی اور ٹریڈ لائنسنس لے رکھے ہیں۔ ہر ماہ کے ایم سی کو ٹیکس دیتے ہیں۔ حکومت کو سالانہ ٹیکس کی ادائیگی کرتے ہیں۔ پھر بھی گیسٹ ہاؤسز کی صنعت کو فروغ دینے کے بجائے اسے تنگ کیا جارہا ہے‘‘۔ ملک جاوید کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے رہائشی علاقوں میں لوگوں کو رہائش ہی دی ہوتی ہے جو دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ اگر یہی مہمان بڑے ہوٹل میں جائے گا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو دگنا چارجز دینا ہوں گے، اور ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ وہ کاروبار کے لئے آیا ہے اور کم از کم ریٹ پر رہائش اختیار کرکے اپنا کام مکمل کرے۔ اس میں بھی ہم کم ریٹ وصول کرتے ہیں۔ اس کے بعد حکومت کو ٹیکس سمیت دیگر بلوں کی مد میں لاکھوں روپے کی ادائیگیاں کمرشل بنیادوں پر ہی کرتے ہیں‘‘۔

Comments (0)
Add Comment