نمائندہ امت
سینئر وکلا تحریک لبیک پاکستان کیلئے قانونی معاونت فراہم کرنے سے کترا رہے ہیں۔ دوسری جانب تحریک لبیک کے قائم مقام امیر شفیق امینی کا ایک ویڈیو بیان میں کہنا تھا کہ ’’ہم ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں اور ہمارے خون کا آخری قطرہ بھی لبیک کی صدا بلند کرے گا‘‘۔ تحریک لبیک کے ذرائع کے مطابق پارٹی کو قانونی محاذ پر معاونت کیلئے کسی اہم اور بڑے وکیل کی خدمات حاصل کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ کیونکہ یہ بغاوت کے مقدمات ہیں جس میں مدعی ریاست ہے اور الزام کے مطابق ملزمان جن میں علامہ خادم حسین رضوی، پیر افضل قادری اور دیگر شامل ہیں، نے نہ صرف عام لوگوں کو ریاست کے خلاف بھڑکایا بلکہ ملکی سلامتی کے ایک اہم ترین ادارے کے افسران کو بھی بغاوت کی ترغیب دی اور اس ادارے کے سربراہ پر براہ راست بھرے مجمع میں سنگین ترین الزام عائد کئے۔ یہی وجہ ہے کہ معروف قانون دان ان تقاریر کا دفاع کرنا انتہائی مشکل قرار دے رہے ہیں۔
ادھر ڈیفنس آف پاکستان کے سربراہ حافظ احتشام احمد نے ممتاز قانون دان طارق اسد ایڈووکیٹ کی وساطت سے تحریک لبیک کی قیادت پر مقدمات کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرنے کا فیصلہ کیا، جو ممکنہ طور پر آج (پیر کو) دائر کی جائے گی۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پٹیشنر حافظ احتشام احمد کا کہنا تھا کہ ’’علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری و دیگر کی گرفتاری بلاجواز اور مقدمات بے بنیاد ہیں۔ اگر یہ اتنے ہی سنگین مجرم تھے تو وفاقی و صوبائی حکومت کے وزرا نے ان کے ساتھ ٹیبل پر بیٹھ کر مذاکرات کیوں کئے؟ جس کے بعد ایک معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے مطابق ان پر دو نومبر سے پہلے سے درج عام نوعیت کے مقدمات بھی حکومت نے ختم کرنا تھے۔ دو نومبر یعنی اس معاہدے سے 24 نومبر کو گرفتاری تک انہوں نے نہ کوئی ایسی تقریر کی، نہ جلوس نکالا اور نہ کوئی غیر قانونی سرگرمی نظر آئی۔ ان پر دو نومبر سے پہلے کے مقدمات میں دہشت گردی وغیرہ کی دفعات شامل کی جارہی ہیں اور ان بیانات پر یہ دفعات شامل کی جارہی ہیں جن کے بارے میں وہ معاہدے میں معذرت کرچکے ہیں۔ جبکہ وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی دستخط کرکے ان کا موقف یا معذرت قبول کرچکی ہیں۔ دوسری جانب جس جماعت کے سربراہ نے سول نافرمانی کی تحریک شروع کی، بجلی کے بل اسٹیج پر جلائے، لوگوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار نظر آنے کی صورت میں ان کی ٹانگیں توڑ دینے کی سرعام کئی بار ترغیب دی، پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا۔ منتخب ممبران کو پارلیمنٹ کے سامنے انتہائی نامناسب القابات سے نوازتا رہا اور براہ راست ریاست کو چیلنج کیا، وہ آج وزیراعظم ہے۔ ان پر کوئی مقدمہ بھی بغاوت کی دفعات کے تحت درج نہیں ہوا‘‘۔ حافظ احتشام کا کہنا تھا کہ ’’ہم لاہور ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت رٹ دائر کررہے ہیں کہ تمام شہریوں کو یکساں حقوق حاصل ہیں۔ معزز عدالت تحریک لبیک کی قیادت کے خلاف بے بنیاد مقدمات ختم کرنے کا حکم دے اور ان کی رہائی کے بھی احکامات جاری کرے۔ جبکہ ریاست کے خلاف سول نافرمانی کا اعلان کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج کئے جائیں‘‘۔ حافظ احتشام احمد کا مزید کہنا تھا کہ ’’گزشتہ الیکشن میں تمام مذہبی جماعتوں نے بائیس لاکھ جبکہ تحریک لبیک پاکستان نے اکیلے الیکشن لڑ کر 26 لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے۔ اب سیکولر قوتیں اس جماعت کو سبق سکھانے اور اس پر پابندی لگوانے کے درپے ہیں۔ یہ ملک کی سب سے بڑی دینی جماعت کے خلاف گہری سازش ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والی تمام قوتوں، اداروں اور جماعتوں کو اسلام دشمنوں اور یہود کے اس ایجنڈے کے خلاف کلمہ حق ادا کرنا چاہئے‘‘۔
24 نومبر کو تحریک لبیک کی قیادت اور کارکنوں کی گرفتاریوں اور کریک ڈاؤن کے بعد میڈیا کی خاموشی کے علاوہ دیگر جماعتیں بھی جمود کا شکار ہیں، ان حالات میں مفتی منیب الرحمان نے تنظیم المدارس کے دیگر علما اور قائدین کے ساتھ مل کر ٹی ایل پی کے حق میں پہلی مؤثر آواز بلند کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس کریک ڈاؤن کی آڑ میں ان کے مسلک کے مدارس کے خلاف بھی کاروائیاں کی جارہی ہیں اور چھاپے مارے جارہے ہیں۔ ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے مفتی محمد منیب الرحمان کا کہنا تھا کہ ’’بنیادی مسئلہ ملعونہ آسیہ کا ہے، جو روز بروز، پس پشت دھکیلا جارہا ہے۔ ہمارا پر زور مطالبہ ہے کہ اس کے خلاف دائر نظرثانی رٹ پر چیف جسٹس سپریم کورٹ کا فل بینچ تشکیل دیں جو اس اپیل کا فیصلہ کرے۔ تحفظ ناموس شان رسالت انتہائی حساس اور مسلمانوں کیلئے زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ ملعونہ کو دو عدالتوں نے طویل سماعت کے بعد سزا دی، جبکہ سپریم کورٹ نے دو گھنٹے کی سماعت میں دونوں اطراف کے مکمل دلائل اور شواہد نہ سننے کے باوجود بری کردیا۔ اس سے کئی سوالات نے جنم لیا ہے جن کا جواب فل بنچ کی تشکیل ہی سے مل سکتا ہے‘‘۔ مفتی منیب الرحمان نے مزید کہا کہ ’’تحفظ ناموس شان رسالت کے لئے کوشاں ایک جماعت کو نشانہ بنانے سے ممکن ہے وقتی کامیابی مل جائے، لیکن یہ چنگاری سلگتی رہے گی اور شعلہ بھی بن سکتی ہے۔ حکومت، ادارے اور شخصیات صبر و ضبط اور حکمت و تدبر سے کام لیں‘‘۔