محدثین کے حیران کن واقعات

ایک روز امام داخلیؒ اپنی کتابوں سے لوگوں کو احادیث سنا رہے تھے کہ ان کی زبان سے نکلا: ’’سفیان عن ابی الزبیر عن ابراھیم۔‘‘ تو امام بخاریؒ فوراً بول اٹھے کہ ابوالزبیر تو ابراہیم سے روایت نہیں کرتے۔
امام داخلیؒ نے امام بخاریؒ کی بات کو تسلیم نہیں کیا تو امام بخاریؒ نے کہا کہ کتاب کے اصل نسخے میں دیکھنا چاہئے۔ چنانچہ امام داخلیؒ نے مکان میں جا کر نسخہ کا مطالعہ کیا اور پھر باہر آ کر فرمایا کہ اس لڑکے کو بلاؤ۔ امام بخاریؒ حاضر ہوئے تو امام داخلیؒ نے فرمایا کہ میں نے اس وقت جو پڑھاتا تھا، وہ تو بے شک غلط تھا۔ اچھا! اب تم بتاؤ کہ صحیح کس طرح ہے؟ تو امام بخاریؒ نے عرض کیا کہ صحیح: ’’سفیان عن الزبیر بن عدی عن ابراہیم‘‘ ہے۔
یہ سن کر امام داخلیؒ حیران رہ گئے اور فرمایا کہ واقعی تم سچ کہتے ہو۔ پھر قلم اٹھا کر اپنی کتاب کی تصحیح کر لی۔ یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب کہ امام بخاریؒ کی عمر صرف گیارہ سال کی تھی۔ (اولیائے رجال الحدیث،ص: 93)
جب امام بخاریؒ کی عمر سولہ برس کی ہوئی تو آپؒ نے امام ابن مبارکؒ کی تمام کتابیں یاد کر لیں اور محدث وکیعؒ کے تمام نسخے بھی ازبر کر ڈالے۔ پھر اپنی والدہ اور اپنے بھائی احمد بن اسماعیلؒ کے ہمراہ حج کے لئے روانہ ہوئے۔
حج سے فراغت ہوئی تو والدہ اور بھائی وطن واپس چلے آئے اور خود بلاد حجاز میں طلب حدیث کے لئے ٹھہر گئے اور تمام علمی مراکز کا سفر کر کے ایک ہزار اسّی شیوخ کی خدمت میں حاضری دے کر چھ لاکھ حدیثوں کو زبانی یاد کر لیا۔
علم حدیث کی طلب میں آپؒ نے مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، بصرہ، کوفہ، مصر، واسط، الجزائر، شام، بلخ، بخارا، مرو، ہرات اور نیشاپور وغیرہ علمی مرکزوں کا بار بار سفر فرمایا۔ (اولیائے رجال الحدیث، ص: 94)
امام بخاریؒ علم و فضل کے ساتھ ساتھ بے حد متقی اور پرہیز گار تھے۔ وہ حد درجہ محتاط اور تہمت کے محل سے دور رہنے والے تھے۔
والدہ کی دعائیں رنگ لے آئیں:
امام بخاریؒ کے والد اسماعیل ایک متقی شخص اور جلیل القدر عالم تھے۔ انہوں نے امام مالکؒ کی شاگردی اختیار کی۔ امام بخاریؒ کی پیدائش کے کچھ ہی عرصے بعد ان کا انتقال ہوا۔ اسماعیل وراثت میں کافی دولت چھوڑگئے۔ والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت میں جت گئیں۔ ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم بن کر افق عالم پر چمکے اور اپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کردے لیکن ان کی حسرت و یاس کا اس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا، جب ان کے بچے کے مستقبل میں ترقی اور ان کی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔ بچپن ہی میں یہ بچہ اپنی بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔
اب نابینا ہونے کی صورت میں یہ بچہ حصول تعلیم کے لیے علماء کے دروس میں شرکت سے معذور تھا اور نہ وہ حصول علم کے لیے دوسرے شہروں کا سفر اختیار کر سکتا تھا۔ ماں کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا ہوگا؟ عالم دین کیوں کر بن سکے گا؟ بینائی کے بغیر علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟ اس خواہش کی تکمیل کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی تھا۔ ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ دعا کا تھا، چنانچہ رب تعالیٰ نے ان پر دعا کے دروازے کھول دیئے اور پورے اخلاص اور سچی نیت کے ساتھ دربار الٰہی میں گڑگڑا کر رونے لگیں اور رب العزت کے سامنے دست سوال دراز کرکے بچے کی بینائی کے لیے دعائیں مانگنے لگیں، یہ دعائیں نجانے کتنی مدت تک ہوتی رہیں۔
ایک رات انہوں نے عجیب وغریب خواب دیکھا، حضرت ابرہیم علیہ السلام خواب میں نظر آئے، فرما رہے تھے:
’’اے بی بی! تیری دعاؤں کی کثرت کے سبب رب العالمین نے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کر دی ہے۔‘‘
جب وہ بیدار ہوئیں تو دیکھا واقعی ان کے بیٹے کی بینائی بحال ہوگئی ہے، ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:
اے پروردگار!! پریشان حال کی دعائیں تیرے علاوہ کون سن سکتاہے اور کون ہے جو بندوں کی تکلیفوں کو دورکرتا ہے۔
امام المحدثین محمد بن اسماعیل بخاریؒ کی والدہ محترمہ نے بیٹے کی بینائی لوٹ آنے کے بعد اس کی تعلیم وتربیت اس قدر محنت سے کی کہ رب تعالیٰ نے ان کے بیٹے پر علوم و فنون کے دروازے کھول دیئے۔
یہی بچہ زندگی کے مختلف مراحل طے کرتا کرتا بہت بڑا محدث بنا اور قرآن پاک کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب مرتب کی جو ’’صحیح البخاری‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور بچے کو لوگ ’’امام بخاری‘‘ کے نام سے جانتے ہیں، جن کا پورا نام محمد بن اسماعیل البخاریؒ ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment