خیر القرون کا دور ثانی

صحابہکرامؓ کی طرح تابعینؒ کا دور بھی خیر کا زمانہ تھا، کیوں کہ حق تعالیٰ کے محبوبؐ نے تاکید فرمائی تھی:
’’سب سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر ان لوگوں کا جو ساتھ ملے ہوئے ہیں، پھر ان کا جو ان کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔‘‘
تابعین نے اگرچہ نبی اکرمؐ کو تو نہ دیکھا، مگر ان ہستیوں کو ضرور دیکھا جو نبیؐ کو دیکھ چکی تھیں۔ انہوں نے ان سے دین سیکھا، ان سے نبی اکرمؐ کی باتیں سنیں۔ صحابی کرامؓ نبی اکرمؐ کی باتوں کا ایسا نقشہ کھینچتے تھے کہ تابعین یوں محسوس کرتے تھے جیسے وہ خود اپنی آنکھوں سے حضور اقدسؐ کو دیکھ رہے ہیں۔ حدیث پاک میں آیا ہے ’’مبارک ہو اس کو جس نے مجھے دیکھا، پھر اس کو جس نے انہیں دیکھا۔‘‘
فقہائے سبعہ مدینہ:
تابعین مجتہدین میں زیادہ مشہور مدینہ کے فقہاء سبعہ تھے:
1 ابو بکر بن حارث، 2 سلیمان بن یسار، 3 خارجہ بن زید، 4 قاسم بن محمد، 5 سعید بن المسیب، 6 عبد اللہ بن عتبہ اور 7 سالم بن عبد اللہ۔ علیہم الرحمۃ
ائمہ اربعہ کا احسان:
پھر رب العزت نے اپنے اور بندے پیدا فرمائے، جو قرآن اور حدیث کے حامل بن گئے۔ امام ابو حنیفہؒ 80ھ میں پیدا ہوئے، امام مالکؒ 98ھ میں پیدا ہوئے، امام شافعیؒ 150ھ میں پیدا ہوئے۔ امام احمد بن حنبلؒ 166ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ چاروں حضرات علم کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ انہی سے رب العزت نے کام لیا۔ انہوں نے قرآن و حدیث کو پڑھ کر لاکھوں سے زیادہ مسائل اخذ کیے اور امت کے لئے اس کو پکی پکائی کھیر بنا دیا، تاکہ آنے والے لوگ آسانی سے ان پر عمل کرسکیں۔ ان حضرات کا امت پر بڑا احسان ہے۔
ابو حنیفہؒ کی تقلید عہد صحابہؓ میں:
امام ابو حنیفہؒ نے 115ھ سے فتویٰ دینا شروع کیا۔ 120ھ میں اپنے استاد کے جانشین بنے۔ اس وقت سے ان کے مقلدین و متبعین میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ صاحب ارشاد الساریؒ نے لکھا ہے کہ حضرت طارق بن شہاب بجلیؓنے 123ھ میں وفات پائی۔ اس قول کے مطابق یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام ابو حنیفہؒ کی تقلید عہد صحابہؓ سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ (اسلاف کے حیرت انگیز واقعات)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment