کوئی مجھے اس لعنت سے چھٹکارا دلا دے، خدا دشمن کو بھی اس لعنت سے محفوظ رکھے۔ یہ تو انسانوں کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑتی۔ ان خیالات کا اظہار چنیسر گوٹھ کراچی کے رہنے والے ایک شخص ابراہیم نے کیا، جو ہیروئن کی لت میں پڑ کر سارا دن ادھر ادھر مارا مارا پھرتا ہے۔
ابراہیم کے بارے میں پتہ چلا کہ وہ اچھا خاصا ویلڈر تھا۔ یہ خوب صورت نوجوان دن بھر محنت کر کے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ سکون کی زندگی بسر کررہا تھا۔ ابراہیم کے مطابق ہیروئن کا چرچا سن کر دوستوں کی ترغیب پر وہ اس کی طرف مائل ہوا، لیکن رفتہ رفتہ گھر کا سکون برباد ہوتا گیا۔ فاقہ کشی کے باعث چند رشتہ داروں نے بچوں کو تو سہارا دے دیا، لیکن وہ خود کوڑے اور غلاظت کے ڈھیر پر سارا دن کاغذ وغیرہ جمع کر کے فروخت کرتا ہے، لیکن اس آمدنی سے صرف وہ نشہ ہی پورا کر سکتا ہے۔
ابراہیم سے پوچھا گیا کہ تم ایک اچھے کاریگر ہو، پھر کیوں گندگی کے ڈھیر پر گھومتے ہو؟ جس کا جواب دیتے ہوئے ابراہیم نے کہا: ’’صاحب! اب اگر میں یہ بھی نہ کروں تو کون مجھے نشے کے لیے چالیس روپے دے گا؟ بیوی بچے تو پہلے ہی میری وجہ سے دوسروں کے سہارے زندگی بسر کررہے ہیں۔ ٹھیک ہے کوئی مجھے روٹی تو دے دے گا، لیکن نشہ کہاں سے کروں گا۔ اگر نہیں کروں گا تو میری حالت غیر ہونے لگتی ہے۔ روٹی چاہے ملے نہ ملے، ہیروئن ضرور ملنی چاہئے۔‘‘
اس نے بتایا کہ ’’میں نے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی بہت کوشش کی، لیکن میرے پاس اتنے وسائل نہیں کہ اپنا علاج کرا سکوں، حالانکہ ایک دو مرتبہ میں نے دوا استعمال کی بھی، لیکن مہنگی دوا نہیں خرید سکتا، سرکاری اسپتال والے تو ویسے ہی ہماری شکل دیکھ کر بھگا دیتے ہیں، یعنی وہاں کے چوکیدار ہمیں گیٹ سے اندر بھی نہیں جانے دیتے، آخر مجبور ہو کر نشہ کرنا پڑتا ہے۔‘‘
ابراہیم کا کہنا تھا کہ ’’ہاں اگر میرے علاج کا بندوبست ہو جائے تو میں خدا کا شکر ادا کروں گا کہ میری جان کو لگنے والے اس روگ سے نجات مل گئی۔‘‘
چنیسر گوٹھ کے دوسرے لوگوں نے بتایا کہ ابراہیم نہایت محنتی شخص تھا، لیکن منشیات نے اس کی زندگی تباہ کر کے رکھ دی ہے، یہ تو اچھا ہوا کہ اس کے رشتہ دار اس کے بچوں کی دیکھ بھال کررہے ہیں، ورنہ اس زمانے میں کون کسی کی پروا کرتا ہے۔ ان ہی لوگوں کے مطابق یہ شخص رات کو گندگی کے ڈھیر پر ہی سو جاتا ہے۔
ابراہیم نے کہا کہ سرکاری طور پر ہم جیسے ناکارہ لوگوں کا علاج ہو جائے تو بہت سے بھٹکے ہوئے نوجوان راہ راست پر آسکتے ہیں۔ کاش میں اس دلدل میں نہ پھنستا، جس نے آج میرے گھر کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ میری بیوی نہ جانے کس حال میں بچوں کی پرورش کر رہی ہو گی۔ بچے مجھے دیکھ کر کیا محسوس کرتے ہوں گے کہ یہ کیسا باپ ہے؟ گندہ منہ، بال بکھرے ہوئے، کپڑے بھی صاف نہیں رکھتا اور پتہ نہیں میرے بچے کیا کیا سوچتے ہوں گے۔ وہ معصوم چہرے بھی مجھے دیکھ کر ضرور پریشان ہو جاتے ہوں گے۔‘‘
یہ باتیں کرتے ہوئے ابراہیم کی آنکھوں سے زار و قطار آنسو جاری تھے اور وہ سامنے میدان میں لگے ہوئے ایک گندگی کے ڈھیر پر ردی کاغذ اٹھا کر اپنے تھیلے میں ڈالنے لگا۔
حاصل… یقیناً نشہ انسان کے لیے زہر قاتل ہے، یہ انسان کو تباہ و برباد کر کے چھوڑتا ہے، جیسا کہ مندرجہ بالا واقعہ عبرت دلانے کے لیے کافی ہے کہ آئندہ ہم خود بھی ایسے نشوں سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچائیں۔ حق تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔ (سبق آموز واقعات)
٭٭٭٭٭