کوہستان ریڈیو اسکینڈل کے چار ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا

محمد زبیر خان
سات برس بعد کوہستان ویڈیو اسکینڈل کے چار ملزمان نے اعتراف جرم کرلیا۔ گرفتار ملزمان نے اس جگہ کی بھی نشاندہی کر دی ہے، جہاں انہوں نے پانچ میں سے تین لڑکیوں کو قتل کیا تھا۔ پولیس نے دیگر ملزمان کی گرفتاری کیلئے آپریشن شروع کر دیا ہے اور بڑے پیمانے پر چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پولیس نے لڑکیوں کے زندہ ہونے کے بیانات دینے والے 65 افراد کے علاوہ سابق کمشنر ہزارہ خالد عمر زئی، سابق ڈی آئی جی ہزارہ ڈاکٹر نعیم، سابق وزیر اطلاعات میاں افتخار، عوامی نیشنل پارٹی کی سابق خاتون ارکان اسمبلی ستارہ ایاز اور بشریٰ ایاز، سابق رکن صوبائی اسمبلی مولانا عصمت اللہ اور قتل کا حکم دینے والے جرگہ ممبران کے خلاف کسی بھی ممکنہ کارروائی کے لئے پراسیکیوشن سے رائے طلب کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے معاونین، جرگہ ممبران، پولیس افسران اور حکومت کے خلاف بھی کاروائی کے لئے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ کوہستان پولیس نے سپریم کورٹ کے حکم پر لڑکیوں کے قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔
کوہستان پولیس کے ذرائع کے مطابق پولیس تفتیش میں تمام جدید وسائل کو استعمال کیا گیا، جس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے دور میں قائم ہونے والے کمیشن کی جانب سے حاصل کردہ رپورٹوں اور تصاویر کا فارنسک تجزیہ کروایا گیا۔ اسی طرح نادرا کی مدد بھی حاصل کی گئی، جس کے بعد پولیس اس نتیجے پر پہنچی کہ ممکن ہے لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا ہو۔ بعد ازاں مقدمہ درج کر کے لڑکیوں کے لواحقین کو حراست میں لے کر تفتیش کی گئی، جس میں صبیر نامی شخص جو کہ ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکی شاہین اور بازغہ کا والد ہے۔ ساہیر جو سیرین جان نامی لڑکی کا والد ہے۔ آمنہ کے والد سرفراز اور بیگم جان کے بھائی عمر جان نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ تین لڑکیوں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ جن تین لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کیا گیا، ان میں شاہین، بازغہ اور بیگم جان شامل ہیں۔ جبکہ باقی دو لڑکیوں کے بارے میں بیان دیا گیا کہ وہ ان کے پاس ہیں۔ تاہم پولیس ملزمان کے اس بیان پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ ذرائع کے بقول ملزمان نے دوران تفتیش نہ صرف قتل کا اعتراف کیا ہے، بلکہ یہ بھی بتایا ہے کہ ان کو قتل کرنے کے بعد ان کی نعشوں کو پالس کے علاقے گدار میں واقع ایک نالے میں پھنیک دیا گیا تھا۔ پولیس نے جائے وقوعہ کا معائنہ بھی کیا ہے، مگر سات سال بعد لاشیں ملنے کے امکانات کم ہی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ملزمان کے اعتراف جرم کے بعد لڑکیوں کے قتل کے علاوہ سرکاری اہلکاروں کو دھوکا دینے اور اعانت جرم کے مقدمات بھی درج کرلئے گئے ہیں۔
یاد رہے کہ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری نے واقعہ منظر عام پر آنے کے بعد سوموٹو لیا تھا اور اس پر ایک کمیشن بھی قائم کیا تھا۔ اس کمیشن میں شامل تمام ارکان ماسوائے انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ بازی اور اس واقعے کو منظر عام پر لانے والے افضل کوہستانی نے کمیشن کی رپورٹ کو مسترد کر کے رٹ پیٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس وقت کے کمیشن کو علاقے کے 65 افراد نے بیانات دیئے تھے اور انہوں نے پالس کے علاقہ مجسٹریٹ کے دفتر میں بھی دفعہ 164 کے تحت بیانات دیئے تھے کہ پانچ کی پانچ لڑکیاں محفوظ ہیں۔ اسی طرح اس وقت کے کوہستان سے سابق رکن صوبائی اسمبلی مولانا عصمت اللہ، اس وقت کے کمشنر ہزارہ خالد عمر زئی، اس وقت ڈی آئی جی ہزارہ ڈاکٹر نعیم، اس وقت کے وزیر اطلاعات میاں افتخار، خواتین ارکان اسمبلی ستارہ ایاز، بشریٰ گوہر نے بھی بیابات دیئے تھے کہ لڑکیاں محفوظ ہیں۔
انسانی حقوق کی کارکن فرزانہ باری کا کہنا ہے کہ سات سال بعد انصاف کے کچھ تقاضے پورے ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ مگر یہ یقینی بنایا جائے کہ انصاف کے تقاضے مکمل طور پر پورے ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے ایک کمیشن میں وہ اور بشریٰ گوہر کے علاوہ جوڈیشل افسر منیرہ عباسی موجود تھیں۔ اس میں انہوں نے اس بات سے اختلاف کیا تھا کہ لڑکیاں زندہ ہیں۔ انہوں نے دو ٹوک کہا تھا کہ غلط لڑکیوں کو پیش کیا جارہا ہے۔ اسی طرح اس وقت کی انتظامیہ، حکومت، وزیروں سمیت سب نے لڑکیاں زندہ ہونے کا بیان دے کر انصاف کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی تھیں، جس کی وجہ سے سات سال تک انتہائی ہولناک جرم سے متعلق انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوسکے۔ اب یہ بات کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ لڑکیوں کے قتل کی ایف آئی آر درج ہے۔ مگر قتل کی تفتیش بھی اطمینان بخش ہونی چاہیے اور اس میں کسی کو بچانے کی کوشش نہیں ہونی چاہیے۔ ممکنہ طور پر اگلے ہفتے سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوگی، جہاں ریکارڈ پیش کیا جائے گا۔ اس کا جائزہ لینے کے بعد ہی وہ کوئی موقف اختیار کریں گی۔ فرزانہ بازی کا کہنا تھا کہ اس مشہور زمانہ مقدمے میں صرف لڑکیوں کے قتل کرنے والے لواحقین کے خلاف ہی کاروائی نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ ان کو بچانے والے اور جھوٹے بیانات دینے والوں کے خلاف بھی کاروائی ہونی چاہیے۔ اگر پولیس نے تفتیش میں ان کے خلاف موثر کاروائی نہ کی تو وہ اس پر سپریم کورٹ میں موقف جائیں گی اور ضرورت پڑی تو ایک اور رٹ پیٹیشن بھی دائر کی جائے گی۔
کوہستان ڈسٹرکٹ پولیس افسر افتخار خان نے ’’امت‘‘ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ ابھی تفتیش جاری ہے اور چار ملزماں گرفتار کئے گئے ہیں، جبکہ چار مزید کی گرفتاری کے لئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ گرفتار ہونے والے چار افراد نے تین لڑکیوں کے قتل کا اعتراف کیا ہے۔ تاہم انہوں نے اس میں براہ راست ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ واقعہ چھپانے، جرگہ اور لڑکیوں کے زندہ ہونے کے حوالے سے قانونی کارروائی کے لئے پولیس کی جانب سے پراسیکیوشن سے رائے طلب کرلی گئی ہے۔ اس کے بعد ہی مزید کارروائی کی جائے گی۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment