میگزین رپورٹ
افغانستان پر کنٹرول کیلئے 17 سالہ امریکی جنگ کی ناکامی کے بعد ایک طرف جہاں واشنگٹن انتظامیہ نے طالبان کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ وہیں ان مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں متبادل حکمت عملی پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔ جانی اور مالی نقصان کی وجہ سے امریکی فوج افغان جنگ مزید لڑنے کیلئے تیار نہیں۔ لیکن امریکہ طالبان کو مکمل فتح حاصل کرتے بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ لہٰذا افغانستان میں اربکی ملیشیا فورسز اور داعش سمیت مختلف جنگجو گروپوں کو بڑھاوا دینے کی تیاری کی جارہی ہے۔ تاکہ ایک جانب انہیں طالبان کو پورے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنے سے روکنے کیلئے استعمال کیا جا سکے، تو دوسری طرف ان جنگجو گروپوں کو جواز بنا کر امریکہ کو افغانستان میں مداخلت جاری رکھنے کا جواز بھی مل سکے۔
افغانستان کے مشیر قومی سلامتی حمداللہ محب کی صدارت میں پیر کو قومی سیکورٹی کونسل کا اجلاس ہوا۔ جس میں غزنی، ننگرہار، فاریاب اور دیگر صوبوں میں طالبان کی پیش قدمی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں طالبان کے قدم روکنے کیلئے اربکی ملیشیا فورسز کا کردار بڑھانے پر غور ہوا۔ اس اجلاس سے دو روز قبل امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس نے امریکہ کی نیشنل ڈیفنس اسٹرٹیجی پر اہم اظہار خیال کرتے ہوئے افغانستان کو اس کے حال پر نہ چھوڑنے اور امریکہ کی جنگ میں براہ راست شمولیت ختم کرنے کے باوجود وہاں قدم جمائے رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔ ریگن فائونڈیشن کی تقریب سے گفتگو کرتے ہوئے جیمس میٹس نے کہا تھا کہ 20 کے لگ بھگ مختلف خطرناک دہشت گرد گروپ اس خطے میں موجود ہیں۔ اگر امریکہ افغانستان سے چلا گیا تو سب جانتے ہیں کیا ہوگا۔ ہماری انٹیلی جنس سروسز نے واضح طور پر بتایا ہے کہ ہم چند برس تک حملوں کی زد میں آتے رہیں گے۔
تبادلہ خیال کے دوران امریکی وزیر دفاع نے اس بات کی تردید نہیں کی کہ انہیں افغان جنگ ختم کرنے کے حوالے سے دبائو کا سامنا ہے۔ جیمز میٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں طالبان کے حوالے سے دبائو کا سامنا ہے۔ ہمارا مقصد مفاہمت ہے اور زلمے خلیل زاد اس کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی مدد بھی لی جائے گی۔ لیکن اسی گفتگو میں جیمز میٹس کا یہ بھی کہنا تھا کہ چونکہ طالبان الیکشن میں جیت نہیں سکتے۔ لہٰذا وہ مسلح جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ افغان طالبان انتخابی عمل میں حصہ بننے سے اب تک انکار کر رہے ہیں اور ان کا اصرار ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے۔
امریکی وزیر دفاع کے بیان پر افغان طالبان کی جانب سے یکم دسمبر کو ہی ردعمل سامنے آگیا تھا۔ جس میں طالبان ترجمان کا کہنا تھا کہ امریکی وزیر دفاع نے ظاہر کیا ہے کہ امریکہ افغانستان سے فوج نکالنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ تاہم افغان عوام امریکی جارح افواج کو ملک سے نکال باہر کریں گے۔
افغان ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکی وزیر دفاع کا بیان اور افغان حکومت کی جانب سے اربکی ملیشیا فورسز کو از سرنو تقویت دینے کی تیاری دراصل ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ میدان جنگ میں امریکی افواج طالبان کے سامنے پسپائی اختیار کر چکی ہیں۔ اس کا واضح ثبوت امریکی فوج کی طرف سے زمینی کارروائی کے بجائے بمباری پر انحصار ہے۔ امریکہ نے خود اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں اعتراف کیا ہے کہ رواں برس افغانستان میں 6 ہزار بم گرائے گئے، جو ایک ریکارڈ تعداد ہے۔ دوسری جانب برسوں کی تربیت کے باوجود افغان فورسز طالبان کا سامنا کرنے کے قابل ہی نہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اربکی ملیشیا کی تجدید کا اصل مقصد امریکی اور افغان فورسز کی ناکامی کے بعد طالبان کا راستہ روکنا ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ نے ماضی میں بھی اربکی ملیشیا پر انحصار کیا تھا۔ لیکن ان ملیشیا فورسز کی جانب سے عام آبادی پر وحشیانہ مظالم سامنے آنے کے بعد ان کی حوصلہ افزائی ختم کر دی گئی تھی۔ تاہم اب صورت حال تبدیل ہوچکی ہے۔ افغان حکومت نے گزشتہ ہفتے ہی بدنام اربکی کمانڈر علی پور کو رہا کر دیا ہے۔ جسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر صوبہ غور سے حراست میں لیا گیا تھا۔ قندوز کا ایک اور اربکی کمانڈر نوید پہلے ہی حکومت سے ہاتھ ملا چکا ہے۔ افغانستان کے پشتو ذرائع ابلاغ کے مطابق ان اربکی ملیشیا کو حکومتی فریم ورک کے تحت منظم کیا جائے گا۔
ذرائع کے مطابق امریکہ بظاہر تو افغانستان سے انخلا کی تیاریاں کر رہا ہے اور اس سلسلے میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کو بھی تیار ہے۔ لیکن اس کی کوشش یہ ہے کہ کابل میں طالبان اور افغانستان کے مغرب نواز عناصر پر مشتمل حکومت تشکیل دی جا سکے۔ دوسری جانب طالبان اس بات کے لیے تیار ہیں کہ اگر امریکہ سے مذاکرات ناکام ہوئے تو بھی اسے ہر حال میں افغانستان سے نکالا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ مکمل طور پر افغانستان سے نکل گیا تو پورے ملک یا بڑے حصے پر طالبان کے کنٹرول کا واضح امکان ہے۔ لیکن امریکی انتظامیہ طالبان کے لیے میدان خالی چھوڑنے کو تیار نہیں اور طالبان کا راستہ روکنے کیلئے افغانستان میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا چاہتی ہے۔ تاکہ عدم استحکام کو جواز بنا کر اپنی مداخلت جاری رکھ سکے۔ ذرائع کے بقول اربکی ملیشیا فورسز کی بحالی کے ساتھ ساتھ داعش کو بھی پشت پناہی فراہم کی جائے گی۔ ماضی میں سابق افغان صدر حامد کرزئی اور دیگر، امریکہ پر داعش کی پشت پناہی کا الزام عائد کر چکے ہیں۔ افغان طالبان پہلے ہی داعش اور اربکی ملیشیا فورسز دونوں سے لڑائی میں مصروف ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ امریکہ کا منصوبہ افغانستان میں دہشت گرد گروپ اور خانہ جنگی کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ جسے جواز بناکر بعد ازاں اقوام متحدہ سے افغانستان کو کنٹرول کرنے کا مینڈیٹ لیا جائے گا۔ اسی مینڈیٹ کے ذریعے افغان جنگ کے اخراجات بھی ان ممالک پر ڈالے جائیں گے۔
واشنگٹن انتظامیہ کے اس منصوبے کو عوام کی نظر میں قابل قبول بنانے کیلئے امریکی میڈیا نے پہلے ہی کام شروع کردیا ہے اور اخبارات افغانستان کو ’’چھوڑ دینے‘‘ کی مخالفت میں اداریے لکھ رہے ہیں۔ ان اداریوں میں افغانستان کے ’’بدمعاش ریاست‘‘ (rogue state) بننے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔ شکاگو ٹریبون نے ایسے ہی ایک اداریے میں کہا کہ افغان جنگ پر 45 ارب ڈالر کے خرچ اور فوجیوں کی بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کا جواز پیش کرنا دن بدن مشکل ہو رہا ہے۔ ایسے میں انخلا کا خیال آنا لازمی ہے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ قیمت اس وقت چکانا پڑے گی جب دہشت گرد گروپوں کو یہ موقع دیا گیا کہ وہ افغانستان کو امریکہ کے لیے طویل المدت خطرہ بنا دیں۔
امریکی ایما پر افغانستان میں اربکی ملیشیا کو فروغ دینے کا ایک نتیجہ لسانی اور نسلی بنیادوں پر لڑائیاں شروع ہونے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ افغان حکومت نے غور کے جس اربکی کمانڈر علی پور کو رہا کیا ہے، اس کا تعلق افغانستان کی ہزارہ کمیونٹی سے ہے اور اس پر پشتونوں کے قتل کا الزام ہے۔ اربکی ملیشیا فورسز کے حوالے سے منصوبے امریکی ماہرین نے 2009ء میں ہی مسترد کر دیئے تھے۔ ایک امریکی پروفیسر کمبرلی مارٹن نے امریکہ کو برطانوی ایمپائر کی تاریخ سے سبق سیکھنے کا مشورہ دیا تھا۔ 2017ء میں امریکہ نے ایک بار پھر اس منصوبے پر غور شروع کیا۔ جس پر اقوام متحدہ میں بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر برطانوی اخبار گارجین سے گفتگو کرتے ہوئے ایک مغربی سفارتکار نے کہا تھا کہ ’’یہ پالیسی ٹرمپ کی تقریر کا نتیجہ ہے۔ جب آپ اعلان کرتے ہیں کہ آپ کی توجہ دہشت گردوں کو قتل کرنے پر ہوگی تو پھر قتل ہی آپ کی پالیسی کا محور بن جاتا ہے‘‘۔
تاہم امریکہ نے قتل عام کی اس پالیسی کو اب پھر آگے بڑھانا شروع کر دیا ہے۔ افغان قومی سلامتی کونسل جمعہ کو اربکی ملیشیا فورسزکی بحالی کا منصوبہ کابینہ کے سامنے رکھے گی۔ ٭
٭٭٭٭٭