آن لائن فراڈ کا شکار بینک صارفین کو لاوارث چھوڑ دیا گیا

عمران خان
آن لائن بینکنگ فراڈ کا شکار ہونے والے نجی بینکوں کے سینکڑوں کھاتیداروں کو لاوارث چھوڑ دیا گیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے افسران ملزمان کا سراغ لگانے کے باجود محض ایس او پی نہ ہونے کے باعث انہیں گرفتار کرنے میں ناکام ہیں۔ جبکہ نجی بینکوں نے اس نوعیت کی وارداتوں میں لٹنے والے اپنے اکائونٹس ہولڈز کی رقوم ’’انشورڈ‘‘ نہ ہونے کا جواز پیش کرکے انہیں رقوم ادا کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ دوسری جانب اسٹیٹ بینک کی انتظامیہ اس پوری صورتحال میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے اب تک کی جانے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ بینکنگ فراڈ میں ملوث گروپ غیر ملکی ویب سائٹس سے سافٹ ویئر خرید کر شہریوں کے موبائل نمبرز کو وارداتوں کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ جرمنی، امریکہ، فرانس اور کینیڈا میں موجود ویب سائٹس کی انتظامیہ ’’آن لائن ادائیگی‘‘ پر ایسے سافٹ ویئر جعل سازوں کو فراہم کر رہی ہیں، جن کے ذریعے وہ شہریوں کے زیر استعمال فون نمبرزکو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں۔ جبکہ ان شہریوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی، جن کے موبائل فون نمبرز استعمال کئے جاتے ہیں۔ تحقیقات کرنے والے افسران نے جب جعل سازوں کی جانب سے شہریوں سے بینک اکائونٹس کی تفصیلات لینے کیلئے استعمال کئے جانے والے موبائل نمبروں کو ٹریس کیا تو معلوم ہوا کہ جن کے نام پر ان نمبرز کی سم رجسٹرڈ ہیں ان کا ان وارداتوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ایف آئی اے ذرائع کے مطابق رواں برس ملک بھر میں آن لائن بینکنگ فراڈ کی 15 سو سے زائد وارداتوں کی رپورٹس ایف آئی اے سائبر کرائم سرکلز کو موصول ہوئی ہیں۔ صرف کراچی میں رواں برس 100 سے زائد کیس ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کو رپورٹ ہوئے ہیں، جس میں سب سے زیادہ تعداد حبیب بینک کے کھاتے داروں کی ہے۔ مجموعی طور پر کراچی کے مختلف نجی بینکوں کے اکائونٹ ہولڈرز کے کروڑوں روپے آن لائن فراڈ کے ذریعے پنجاب کے مختلف شہروں میں ٹرانسفر کئے گئے اور پھر اے ٹی ایم اور ایزی پیسہ کی دکانوں سے وصول کرلئے گئے۔ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ رواں برس صرف ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کراچی میں آن لائن بینکنگ فراڈ کا شکار ہونے والے اکائونٹ ہولڈرز کے حوالے سے 100 سے زائد انکوائریاں شروع کی گئی ہیں، جن میں شہریوں نے اپنے بینک اکائونٹس سے لاکھوں روپے نکل جانے کی شکایات درج کرائی ہیں۔
ذرائع کے مطابق ملک بھر میں اسٹیٹ بینک اور ایف آئی اے حکام کی جانب سے الرٹ جاری کئے جانے کے باجود آن لائن فراڈ کی وارداتیں بڑھتی جارہی ہیں۔ شہریوں کو ایسی فون کالز موصول ہوتی ہیں، جن میں دھوکے باز گروپوں کے کارندے خود کو حساس ادارے کے ملازمین ظاہر کرکے شہریوں سے ان کے بینک اکائونٹس کی تفصیلات حاصل کرنے کی کوششیں کرتے ہیں اور معلومات مل جانے کی صورت میں اگلے چند منٹوں میں شہریوں کے اکائونٹس میں موجود رقوم کا صفایا ہوجاتا ہے۔ ملزمان یہ رقوم آن لائن بینکنگ کی سہولت استعمال کرتے ہوئے اپنے زیر استعمال اکائونٹس میں ٹرانسفر کروا لیتے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے تفتیشی افسران کے پاس اس نوعیت کی انکوائریاں چل رہی ہیں۔ جبکہ کراچی میں جن نجی بینکوں کے کھاتیدار فراڈ کا شکار ہوئے ان میں حبیب بینک کے صارفین کی تعداد زیادہ ہے۔ جبکہ لٹنے والوں میں ایم سی بی بینک، الائیڈ بینک، یوبی ایل اور دیگر بینکوں کے صارفین شامل ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملزمان کے زیر استعمال نمبروں، رقوم ٹرانسفر کرنے کیلئے استعمال ہونے والے بینک اکائونٹس، ایزی پیسہ کے ریکارڈ اور فارنسک تفتیش سے سائبر کرائم سرکل کے بعض افسران نے ملزمان کا سراغ لگایا، تاہم ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کی عدم دلچسپی اور نااہلی کے سبب اب تک ملزمان گرفتار نہیں کئے جاسکے ہیں۔ ذرائع کے بقول کراچی کے جن بینکوں کے صارفین کو آن لائن فراڈ کے ذریعے لوٹا گیا، ان کی رقوم پنجاب کے شہروں سرگودھا، بہاولنگر اور لاہور وغیرہ کے اطراف سے ایزی پیسے کی دکانوں اور مائیکرو فنانس بینکنگ کے اے ٹی ایم استعمال کرکے نکلوائی گئیں۔ جس کے بعد ریکارڈ کی مدد سے ملزمان کا سراغ لگایا گیا، تاہم کراچی سے جانے والی ٹیم ایک ہفتے کی مسلسل محنت کے باجود ان ملزمان کو گرفتار نہیں کرسکی اور واپس آگئی۔ بعد ازاں یہ انکوائری ملزمان کی گرفتاری کیلئے لاہور ٹرانسفر کردی گئی تاکہ لاہور کی ٹیمیں سامنے آنے والی انفارمیشن کی بنیاد پر ملزمان کو گرفتار کرسکیں۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد یہ انکوائری بغیر کسی پیشرفت کے لاہور سرکل سے واپس کراچی سرکل بھجوادی گئی اور کہا گیا کہ چونکہ یہ انکوائری کراچی سے متعلق ہے اور اس کا تفتیشی افسر بھی کراچی میں موجود ہے، لہذا ان انکوائریوں پر گرفتاریوں کی ذمے داری بھی انہیں افسران کی ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک بھر میں آن لائن بینکنگ فراڈ کا معاملہ سنگین صورت اختیار کرگیا ہے۔ تاہم اب تک ایف آئی اے سائبر کرائم سرکلز کیلئے کوئی ایس او پی نہیں بنائی گئی اور نہ ہی کوئی مشترکہ کمیٹی قائم کی گئی ہے، جس کے تحت ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک اسی شہر کے ایف آئی اے سرکل کو دیا جاسکے، جہاں پر ملزمان موجود ہیں۔ کیونکہ دوسرے شہر سے آنے والی ٹیموں کیلئے یہ کام ناممکن ہوتا ہے۔ ذرائع کے بقول ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے اسلام آباد ہیڈ کوارٹر اور ڈائریکٹر آفس سے بیرون صوبہ جانے والے ٹیموں کو کسی قسم کے فنڈز نہیں دیئے جاتے، حتیٰ کہ آنے جانے کے ٹکٹ اور کھانے پینے کے اخراجات کی مد میں بھی کوئی رقم نہیں دی جاتی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آن لائن بینکنگ فراڈ کی وارداتیں روکنے اور ملزمان کی گرفتاری میں ایف آئی اے حکام اور اسٹیٹ بینک کا کوئی عملی کردار نظر نہیں آرہا ہے۔ دوسری جانب لٹنے والے شہریوں کو نجی بینکوں کی جانب سے رقوم بھی واپس نہیں دی جارہی ہیں۔ بینکوں کی انتظامیہ کا موقف ہے کہ چونکہ شہری خود اپنی معلومات دیکر فراڈ کا شکار ہورہے ہیں اس لئے ان کو رقوم واپس کرنا بینک کی ذمے داری نہیں ہے۔ ایسے کیسوں میں رقم ’’انشورڈ ‘‘ نہیں ہوتی ہے۔ ایف آئی اے ذرائع کے بقول نجی بینکوں کے آن لائن سسٹم کو فول پروف بنانے اور فراڈیوں کی رسائی سے دور رکھنے کیلئے بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک ہفتہ قبل فراڈیوں کے ہاتھوں لٹنے والے میزان بینک کے ایک کھاتیدار نوجوان نے ’’امت‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ اس کے پاس پی ٹی سی ایل نمبر سے کال آئی، جس میں ایک شخص نے خود کو پاک آرمی ہیڈ کوارٹر کا افسر ظاہر کیا اور کہا کہ تھوڑی دیر میں اس کے پاس موبائل نمبر سے کال آئے گی، جہاں اس کو اپنے بینک اکائونٹس کی تفصیلات بتانی ہونگی، کیونکہ یہ سروے ملک بھر میں کیا جا رہا ہے تاکہ مستقبل میں جعلی کمپنیوں اور اکائونٹس کے ذریعے غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی جاسکے اور جو لوگ سروے میں درست معلوما ت فراہم کریں گے ان کیلئے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا۔ بعدازاں موبائل نمبر سے کال آنے پر نوجوان نے اپنے میزان بینک کے اکائونٹ کا کریڈٹ کارڈ نمبر بتایا۔ جس کے بعد اس کے اکائونٹ سے 3 لاکھ روپے نکل گئے۔ ایف آئی اے ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سینکڑوں شہریوں کے بینک اکائونٹس سے رواں برس فراڈ کے ذریعے ہتھیائی جانے والی رقم اربوں روپے میں جاپہنچی ہے ۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment