معارف القرآن

معارف و مسائل
قیامت اور مرنے کے بعد زندہ ہونے سے انکار گویا ان کی طرف سے اس کا دعویٰ ہے کہ ان کی جان اور روح خود ان کے قبضہ میں ہے اور ان کی اپنی زندگی میں ان کو بھی کچھ دخل ہے ، ان کے اس خیال باطل کی تردید کے لئے آیات مذکورہ میں ایک قریب الموت انسان کی مثال دے کر بتلایا کہ جب اس کی روح حلق میں پہنچتی ہے اور تم یعنی مرنے والے کے عزیز ، دوست و احباب سب اس کے حال کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اور بتقاضائے محبت و تعلق یہ بھی چاہتے ہیں کہ اس کی روح نہ نکلے ، یہ زندہ رہے ، مگر اس وقت سب کو اپنی بیچارگی اور عاجزی کا احساس و اقرار ہوتا ہے کہ کوئی اس مرنے والے کی جان نہیں بچا سکتا اس پر حق تعالیٰ نے فرمایا کہ اس وقت اپنے علم و قدرت کے لحاظ سے ہم تمہاری نسبت اس مرنے والے سے زیادہ قریب ہوتے ہیں ، قریب ہونے سے مراد اس کے اندرونی اور ظاہری حالات سے واقفیت اور اس پر پوری قدرت ہے اور فرمایا کہ مگر تم ہمارے اس قرب کو اور مرنے والے کے زیر تصرف ہونے کو آنکھوں سے نہیں دیکھتے ، خلاصہ یہ ہے کہ تم سب مل کر اس کی زندگی اور روح کی حفاظت چاہتے ہو مگر تمہاری بات نہیں چلتی ، ہم اپنے علم و قدرت کے اعتبار سے اس کے زیادہ قریب ہیں ، وہ ہمارے زیر تصرف اور مشیت و حکم کے تابع ہے ، جس لمحہ میں اس کی روح نکالنا ہم طے کر چکے ہیں ، اس کو کوئی روک نہیں سکتا، اس مثال کو سامنے کر کے ارشاد ہوتا ہے کہ اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ مرنے کے بعد تمہیں زندہ نہیں کیا جا سکتا اور تم اتنے قوی اور بہادر ہو کر خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہو تو ذرا اپنی قوت و قدرت کا امتحان یہیں کر دیکھو کہ اس مرنے والے کی روح کو نکلنے سے بچا لو، یا نکلنے کے بعد اس میں لوٹا دو اور جب تم سے اتنا بھی نہیں ہوسکتا تو پھر اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی گرفت سے باہر سمجھنا اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے سے انکار کرنا کس قدر بے عقلی کی علامت ہے۔ (جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment