پراسرار بوڑھے کی عجیب داستان

پہلا حصہ
مسجد النبوی الشریف علی صاحبہا الصلوٰۃ و السلام کی پربہار فضائوں میں ایک بار امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظمؓ اور دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان میں قرآن پاک کے فضائل پر مذاکرہ ہو رہا تھا۔ اس دوران حضرت سیدنا عمرو بن معدیکربؓ نے عرض کیا:
’’یا امیر المومنین! آپ حضرات بسم اللہ الرحمن الرحیم کے عجائبات کو کیوں بھول رہے ہیں۔ خدا کی قسم! بسم اللہ الرحمن الرحیم بہت ہی بڑا عجوبہ ہے۔‘‘
امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظمؓ نے یہ سن کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے اور فرمانے لگے: ’’اے ابو ماثور! (یہ حضرت سیدنا عمرو بن معد یکربؓ کی کنیت تھی) آپ ہمیں کوئی عجیبہ سنایئے۔‘‘
چنانچہ حضرت سیدنا عمرو بن معدی کربؓ نے فرمایا:
’’زمانہ جاہلیت تھا۔ قحط سالی کے دوران تلاش رزق کی خاطر میں ایک جنگل سے گزرا۔ دور سے ایک خیمے پر نظر پڑی۔ قریب ہی ایک گھوڑا اور کچھ مویشی بھی نظر آئے۔ جب قریب پہنچا تو وہاں ایک حسین و جمیل عورت بھی موجود تھی اور خیمہ کے صحن میں ایک بوڑھا شخص ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اس کو دھمکاتے ہوئے کہا: ’’جو کچھ تیرے پاس ہے، میرے حوالے کردے۔‘‘
اس نے کہا: ’’اے آدمی! اگر تو مہمانی چاہتا ہے تو آجا اور اگر امداد درکار ہے تو ہم تیری مدد کریں گے۔‘‘
میں نے کہا: ’’باتیں مت بنا، تیرے پاس جو کچھ ہے، میرے حوالے کر دے۔‘‘ تو وہ بوڑھا کمزوروں کی طرح بمشکل تمام کھڑا ہوا اور بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر میرے قریب آیا اور نہایت پھرتی سے مجھ پر جھپٹا اور مجھے پٹخ کر میرے سینے پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا ’’اب بول! میں تجھے ذبح کردوں یا چھوڑ دوں؟‘‘
میں نے گھبرا کر کہا ’’چھوڑ دو۔‘‘ وہ میرے سینے سے ہٹ گیا۔ میں نے دل میں اپنے آپ کو ملامت کی اور کہا: اے عمرو! تو عرب کا مشہور شہسوار ہے۔ اس کمزور بوڑھے سے ہار کر بھاگنا نامردی ہے۔ اس ذلت سے تو مر جانا ہی بہتر ہے۔ چنانچہ میں نے پھر اس سے کہا ’’تیرے پاس جو کچھ ہے، میرے حوالے کردے۔‘‘ یہ سنتے ہی بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر وہ پراسرار بوڑھا پھر مجھ پر حملہ آور ہوا اور چشم زدن میں مجھے گرا کر سینے پر سوار ہوگیا اور کہنے لگا ’’بول! تجھے ذبح کردوں یاچھوڑ دوں؟‘‘
میں نے کہا مجھے معاف کردو۔ اس نے چھوڑ دیا، مگر پھر میں نے اس سے سارے مال کا مطالبہ کردیا۔ اس نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر پھر پچھاڑ کر مجھ پر قابو پالیا۔ میں نے کہا: مجھے چھوڑدو۔ اس نے کہا ’’اب تیسری بار میں ایسے نہیں چھوڑوں گا‘‘
یہ کہہ کر اس نے پکار کر کہا: اے کنیز! تیز دھار دار تلوار لے آ۔ وہ لے آئی۔ اس نے میرے سر کے اگلے حصے کی چوٹی کاٹ ڈالی اور مجھے چھوڑ دیا۔ ہم عربوں میں رواج ہے کہ جب کسی کی چوٹی کے بال کاٹ دیئے جاتے ہیں تو وہ دوبارہ اگنے سے قبل اپنے گھر والوں کو منہ دکھاتے ہوئے شرماتا ہے (کیونکہ چوٹی کٹ جانا شکست خوردہ ہونے کی علامت ہے) چنانچہ میں ایک سال تک اس پراسرار بوڑھے کی خدمت کا پابند ہو گیا۔
سال پورا ہوجانے کے بعد وہ مجھے ایک وادی میں لے گیا۔ وہاں اس نے بلند آواز سے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھی تو تمام پرندے اپنے گھونسلوں سے باہر نکل کر اڑ گئے۔ دوبارہ اسی طرح پڑھنے پر تمام درندے اپنی اپنی پناہ گاہوں سے باہر چلے گئے۔ پھر تیسری بار زور سے پڑھنے پر اونی لباس میں ملبوس کھجور کے تنے جتنا لمبا خوفناک کالا جن ظاہر ہوا۔ اس کو دیکھ کر میرے بدن میں جھرجھری کی لہر دوڑ گئی۔(جاری ہے)

Comments (0)
Add Comment