امت رپورٹ
غدار وطن الطاف حسین نے کراچی میں اپنے وفاداروں کو کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی کی ہر طرح سے مدد کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ لندن سے کراچی بھیجے جانے والے ایک سے زائد خفیہ پیغامات میں لندن ٹولے سے وابستگی رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جو ورکرز بی ایل اے کے ساتھ مل کر عملی طور پر کارروائیاں کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، وہ اپنے نام ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ لندن میں براہ راست الطاف حسین کے پاس واٹس ایپ کے ذریعے پہنچائیں۔ نام کے ساتھ علاقہ، گھرکا ایڈریس اور دیگر ڈیٹا بھی فراہم کیا جائے۔ اسی طرح جو ورکرز عملی طور پر اس ’’مشن‘‘ میں حصہ نہیں لینا چاہتے تو وہ بطور سہولت کار اپنا نام اور دیگر تفصیلات بھیجیں، تاکہ ان کے کام کے مطابق انہیں فنڈنگ اور دیگر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ ایم کیو ایم انٹرنیشنل سیکریٹریٹ تک رسائی رکھنے والے ذرائع نے بتایا کہ اسی نوعیت کا پیغام مختلف ممالک میں ایم کیو ایم اوورسیز کے کارکنان کو بھی بھیجا گیا۔ اور انہیں باقاعدہ کہا گیا ہے کہ اب بلوچوں کی طرح ’’سرمچار‘‘ بننے کا وقت آ گیا ہے، لہٰذا گھروں سے نکلا جائے۔ واضح رہے کہ براہمداغ بگٹی اور حیر بیار مری جن بلوچ نوجوانوں کو گمراہ کر کے ریاست کے خلاف دہشت گردی کرا رہے ہیں، ان نوجوانوں کو انہوں نے ’’سرمچار‘‘ قرار دے رکھا ہے۔ اس بلوچی لفظ کا مطلب ہے ’’آزادی کی جنگ لڑنے والا‘‘۔ کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی اور بلوچ ری پبلکن آرمی اب تک ان ہزاروں خود ساختہ ’’سرمچاروں‘‘ کو موت کی وادی میں دھکیل چکی ہیں۔
الطاف حسین نے تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل پاکستان اور مختلف ممالک میں موجود اپنے ورکرز کو ’’سرمچار‘‘ کے طور پر اپنا نام لکھوانے کی ہدایت کی تھی۔ تاہم لندن میں موجود ذرائع نے بتایا کہ غدار وطن کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ بالخصوص امریکہ، کینیڈا، برطانیہ، بلجیم، آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور خلیجی ممالک میں موجود ایم کیو ایم لندن کے عہدیداران اور کارکنوں کی طرف سے اس ہدایت پر کان نہیں دھرا گیا اور بمشکل سات سے آٹھ لوگوں نے ہی اپنے نام لکھائے۔ تاہم ذرائع کے بقول کراچی، حیدرآباد اور نواب شاہ سے اس سلسلے میں دو تین درجن لوگوں نے نام لکھوائے ہیں۔ جبکہ واٹس ایپ پر وائس کال کے ذریعے سینکڑوں کی تعداد میں الطاف حسین کو ایسے میسجز موصول ہوئے، جن میں متحدہ سربراہ کے اس اقدام سے اختلاف رائے کرتے ہوئے لعن طعن کی گئی ہے۔ بعض وائس میسجز میں یہاں تک کہا گیا ہے کہ الطاف حسین کی ملک دشمن پالیسیوں کی سزا آج ساری مہاجر قوم بھگت رہی ہے اور اب جو رہی سہی کسر ہے، وہ الطاف حسین کالعدم دہشت گرد تنظیموں کے لئے ورکرز کو استعمال کر کے پوری کرنا چاہتے ہیں، جبکہ خود اپنے خاندان اور بہن بھائیوں کے ہمراہ باہر عیش کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس نوعیت کے وائس میسجز پر برہم الطاف حسین کو رابطہ کمیٹی کے بعض ارکان نے یہ کہہ کر رام کرنے کی کوشش کی ہے کہ ’’بھائی، یہ ہمارے اصل ورکرز نہیں بلکہ ایجنسیوں کے ایجنٹوں نے سسٹم میں گھس کر پیغامات بھیجے ہیں‘‘۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی میں الطاف ٹولے سے وابستہ ورکرز میں سے بیشتر پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور چینی قونصل خانے پر دہشت گردی کے حالیہ واقعہ میں اس پہلو پر تحقیقات کی جانی چاہئے کہ بلوچستان لبریشن آرمی کے دہشت گردوں کی سہولت کاری میں لندن گروپ کے لوگ تو ملوث نہیں؟ جنہوں نے ان حملہ آوروں کو پناہ سمیت دیگر لاجسٹک سپورٹ فراہم کی ہو۔ کیونکہ بلوچستان لبریشن آرمی کے سربراہ حیر بیار مری سے الطاف حسین کے دیرینہ تعلقات ہیں اور حالیہ چند ماہ میں یہ قربتیں بڑھ گئی ہیں۔
لندن میں موجود ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ برطانیہ میں سیاسی پناہ لینے والے حیر بیار مری کا الطاف حسین سے ٹیلی فون پر تازہ رابطہ ہوا ہے۔ قبل ازیں 2007ء میں بھارتی ’’را‘‘ نے ایم کیو ایم اور بی ایل اے کے درمیان غیر اعلانیہ معاہدہ کرایا تھا۔ تاہم چند برس بعد یہ تعلقات کچھ کمزور پڑ گئے تھے۔ اب بھارت کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ ایک بار پھر نہ صرف بی ایل اے بلکہ براہمداغ بگٹی کی کالعدم ری پبلکن آرمی سمیت دیگر علیحدگی پسند بلوچوں کے ساتھ ایم کیو ایم الطاف کے رابطے مضبوط کرا رہی ہے، تاکہ سی پیک پروجیکٹ کو نشانہ بنایا جا سکے۔ اس سلسلے میں ’’را‘‘ کی خواہش ہے کہ کراچی میں کارروائیاں کرنے والے بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کے دہشت گردوں کے لئے الطاف گروپ کے لوگ سہولت کاری کا کردار ادا کریں۔ ذرائع کے بقول ’’را‘‘ کے اس نئے پلان پر عمل کر کے الطاف بھارت سے دوبارہ اپنے تعلقات مضبوط کرنا چاہتا ہے، تاکہ لندن گروپ کے ہاتھ سے کراچی نکلنے کے بعد ’’را‘‘ کے ساتھ تعلقات میں پیدا ہونے والی سرد مہری کا خاتمہ ہو جائے اور ساتھ ہی فنڈنگ میں ہونے والی کٹوتی بھی رک جائے۔ ذرائع کے مطابق دوسری جانب بظاہر سیاسی چہرے کے طور پر تمام پاکستان مخالف قوم پرست تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا ٹاسک ماما قدیر کو دیا گیا ہے۔ کیونکہ حیر بیار مری، برہمداغ بگٹی، خان آف قلات اور دیگر نام نہاد بلوچ رہنمائوں کے مقابلے میں ماما قدیر آسانی سے نقل و حرکت کر سکتے ہیں۔ ماما قدیر کی جانب سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے نام پر الطاف حسین، منظور پشتین، شفیع برفت اور دیگر سے ٹیلی فون پر رابطے کئے جا رہے ہیں۔ جس کے بعد ایک مشترکہ سیمینار بلانے کا پلان بنایا گیا ہے۔
لندن میں موجود ذرائع کے مطابق قریباً دو برس پہلے جب نام نہاد بلوچ رہنمائوں نے جلا وطن حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا تھا تو اس دوران الطاف حسین نے علاج کے بہانے قریباً تین بار فرانس جا کر حیر بیار مری سے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ اگرچہ دونوں لندن میں مقیم ہیں، لیکن یہاں چونکہ ملاقات افشا ہونے کا خطرہ تھا اور پھر کافی عرصے سے اسکاٹ لینڈ یارڈ نے بھی الطاف حسین پر خصوصی نظر رکھی ہوئی تھی۔ لہٰذا ملاقاتوں کے لئے پیرس (فرانس) کا انتخاب کیا گیا تھا۔ جہاں الطاف حسین نے حیر بیار مری کو یقین دلایا تھا کہ اگر تمام ریاست مخالف بلوچ رہنما ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جلا وطن حکومت قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ایم کیو ایم ان کے ساتھ ہو گی۔ ذرائع کے مطابق جلا وطن بلوچ حکومت کے ناکام منصوبے کے پیچھے بھی ’’را‘‘ تھی۔ بھارتی ایجنسی نے اس کے لئے خان آف قلات امیر احمد سلیمان دائود کو آگے کیا تھا۔ جبکہ دیگر معاملات طے کرنے کے لئے ’’ہند بلوچ فورم‘‘ کی سربراہ نائلہ قادری بلوچ کو بھارت بھیجا گیا۔ نائلہ بلوچ نے دہلی جا کر بھارتی تھنک ٹینکس، پالیسی میکرز اور سیاستدانوں سے متعدد خفیہ ملاقاتیں کیں۔ منصوبہ یہ تھا کہ خان آف قلات کی جانب سے بھارت میں جلا وطن حکومت کا اعلان کیا جائے گا۔ اس خیالی جلا وطن حکومت میں حیر بیار مری اور برہمداغ بگٹی سمیت دیگر علیحدگی پسند رہنمائوں کو نمائندگی دی جائے گی۔ جبکہ جلا وطن حکومت کو سب سے پہلے بھارت تسلیم کرے گا۔ اور خان آف قلات کو تبت کے دلائی لامہ جیسی حیثیت دی جائے گی۔ جبکہ اس خیالی جلا وطن حکومت سے قبل بھارت مختلف ممالک میں پناہ گزین پاکستان مخالف نام نہاد بلوچ رہنمائوں کو پاسپورٹ اور دیگر سفری دستاویزات جاری کرے گا، تاکہ وہ آسانی سے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے کر سکیں۔ تاہم ذرائع کے مطابق یہ پلان قبل از وقت ہی بیک فائر کر گیا۔ کیونکہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کا کہنا تھا کہ اس طرح کی جلا وطن حکومت قائم کرنے کے نتیجے میں بھارت کھل کر سامنے آ جائے گا۔ اور اس کے ردعمل میں سکھوں کی خالصتان جلا وطن حکومت بھی قائم ہو سکتی ہے۔ لہٰذا بھارتی اسٹیبلشمنٹ نے اس پلان کو منسوخ کر دیا اور اس کھلے عام معرکے کے بجائے بلوچ علیحدگی پسندوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف ’’کوورٹ وار‘‘ یعنی دہشت گردی کا سلسلہ برقرار رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔ ذرائع کے مطابق بلوچ علیحدگی پسند رہنمائوں کے درمیان بھی اس بات پر اختلاف ہو گیا تھا کہ اس جلا وطن حکومت کا سربراہ کون ہو گا؟ پلان ناکام ہونے کی ایک اور وجہ یہ بھی تھی۔