امام مسلمؒ:
امام، حافظ، حجۃ ابو الحسین مسلم بن حجاج بن مسلم نیشاپوری 202ھ یا 204ھ یا 206ھ میں نیشا پور میں پیدا ہوئے اور وہیں علم کی کئی منزلیں طے کیں۔ ان کے والدین صاحب حثیت تھے۔ اس لیے امام مسلمؒ کو زندگی میں رزق کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑی۔ انہوں نے اپنی زندگی علم حدیث کی خدمت کے لیے وقف کر دی۔ اٹھارہ برس کی عمر میں سب سے پہلے حدیث کا سماع (سماع اور کتابت لازم و ملزم تھے) یحییٰ بن یحییٰ تمیمیؒ سے کیا۔ 220ھ میں حج کیا اور مکہ میں امام مالکؒ کے اجل ترین شاگرد ابن مسلمہ قعنبیؒ سے احادیث سنیں اور لکھیں۔ کوفہ میں انہوں نے احمد بن یونسؒ کے علاوہ علماء کی ایک جماعت سے تعلیم حاصل کی۔ پھر حرمین، عراق اور مصر کے تقریباً دو سو بیس استاتذہ سے احدیث حاصل کیں۔ حصول حدیث کا طریقہ یہی تھا کہ احادیث مع اسناد سنی اور ساتھ لکھی جاتی تھی۔ (سیرۃ علام النبلاء: 558/12، وتذکرۃ الحفاظ: 281/1)
ان کے اہم اساتذہ میں امام احمد بن حنبلؒ، احمد بن منذر قزازؒ، اسحاق بن راہویہؒ، ابراہیم بن سعید جوہریؒ، ابراہیم بن موسیٰؒ، ابواسحاق رازیؒ، احمد بن ابراہیمؒ، اسحاق بن موسٰی انصاریؒ (ابو موسیٰ)، اسماعیل بن ابی اویسؒ، حرملہ بن یحییٰؒ (ابوحفص تحبیبی)، حسن بن ربیع بورانیؒ، ابوبکر بن ابی شیبہؒ، یعقوب بن ابراہیم دورقیؒ، ابوزرعہ رازیؒ امام بخاریؒ اور یحییٰ بن معینؒ جیسے حفاظ حدیث شامل ہیں۔
امام مسلمؒ کا کچھ کاروبار ایک قدیم قصبے ’’خان محمش‘‘ میں تھا، ان کی معاش کا زیادہ تر انحصار ان کی جاگیر پر تھا، جو نیشاپور ہی مضافات میں واقع تھی۔ امام حاکمؒ کے والد کو ان کے والد (امام حاکم کے دادا) نے بتایا انہوں نے امام مسلم کی زیارت ’’خان محمش‘‘ میں کی تھی۔ ان کی قامت پوری، رنگ گورا اور داڑھی سفید تھی۔ انہوں نے عمامے کا ایک کنارہ دونوں کندھوں کے درمیان پشت پر لٹکایا ہوا تھا۔ امام حاکمؒ کے والد نے امام مسلمؒ کے گھر میں ان کی بیٹیوں کی اولاد بھی دیکھی۔
وفات کا عجیب واقعہ:
ان کی وفات کا واقعہ جس طرح تاریخ بغداد اور سیر اعلام النبلاء میں بیان کیا گیا ہے، انتہائی عجیب ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ فن حدیث میں ان کی جستجو کا کیا عالم تھا اور اس حدیث میں ان کا انہماک کس درجے پر پہنچا ہوا تھا۔ احمد بن سلمہؒ کہتے ہیں: امام مسلمؒ سے استفادے کے لیے ایک مجلس مذکراہ منعقد کی گئی، اس میں ان کے سامنے ایک ایسی روایت کا ذکر آیا جو ان کو معلوم نہ تھی۔ گھر واپس آئے تو چراغ جلایا اور گھر والوں سے کہا کہ ان کے کمرے میں کوئی نہ آئے۔ گھر والوں نے بتایا کہ گھر میں کھجور کا ایک ٹوکرا ہدیہ بھیجا گیا ہے۔ فرمایا: لے آؤ۔ وہ حدیث کی تلاش میں منہمک ہو گئے۔ ٹوکرا ساتھ رکھا تھا، بے خیالی کے عالم میں ٹوکرے سے کھجور کا ایک ایک دانہ اٹھا کر منہ میں ڈالتے رہے، اسی عالم میں صبح ہو گئی۔ انہیں حدیث کی تفصیلات مل گئیں، ادھر ٹوکرا خالی ہو گیا۔ کہا جاتا ہے اسی وجہ سے ان کی طبیعت بگڑ گئی اور علم و عرفان کا یہ سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا۔ امام مسلمؒ کی وفات 24 رجب 261ھ کے اتوار کی شام کو ہوئی، اگلے روز نیشاپور میں تدفین ہوئی۔
تصنیفات:
امام مسلمؒ کی اہم ترین تصنیفات میں سولہ کتب کا ذکر ملتا ہے۔ جنہیں امام حاکمؒ اور دوسرے محدثین نے ذکر کیا ہے۔ لیکن صحیح مسلم کا ان کا وہ علمی کارنامہ ہے، جس سے انہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔
حافظ ابن عساکر اور امام حاکم کہتے ہیں کہ امام مسلمؒ اپنی کتاب صحیح مسلم کو دو اقسام میں مکمل کرنا چاہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قسم اول میں طبقہ اولیٰ کے راویوں کی صحیح احادیث اور قسم ثانی کی صحیح طبقہ ثانیہ کی صحیح احادیث لائیں۔ وہ ابھی طبقہ اولیٰ پر مشتمل حصہ مکمل کر پائے تھے کہ ان کا انتقال ہو گیا، گویا صحیح مسلم ان کی زندگی کے آخری مرحلے کی تصنیف ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭