سیدنا عمرو بن معدی کربؓ نے فرمایا کہ اس پراسرار بوڑھے نے کہا: ’’اے عمرو! ہمت رکھ، اگر یہ مجھ پر غلبہ پالے تو کہنا، اب کی بار میرا ساتھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کی برکت سے غالب ہوگا۔‘‘
پھروہ پراسرار بوڑھا اور کالا جن دونوں گتھم گتھا ہوگئے۔ پراسرار بوڑھا ہار گیا اور کالا جن اس پر غالب آگیا۔ اس پر میں نے کہا: اب کی بار میرا ساتھی لات و عزیٰ (یعنی کافروں کے ان دونوں بتوں) کی وجہ سے جیت جائے گا۔ یہ سن کر پراسرار بوڑھے نے مجھے ایسا زور دار طمانچہ رسید کیا کہ مجھے دن دہاڑے تارے نظر آگئے اور ایسا محسوس ہوا کہ ابھی میرا سر اکھڑ کر دھڑ سے جدا ہو جائے گا۔
میں نے معذرت چاہی اور کہا کہ دوبارہ ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ چنانچہ دونوں میں پھر مقابلہ ہوا۔ پراسرار بوڑھا اس کالے جن کو دبوچنے میں کامیاب ہوگیا تو میں نے کہا ’’میرا ساتھی بسم اللہ الرحمن الرحیم کی برکت سے غالب آگیا۔‘‘ یہ کہنے کی دیر تھی کہ پراسرار بوڑھے نے نہایت پھرتی کے ساتھ اس کالے جن کو زمین میں لکڑی کی طرح گاڑ دیا اور پھر اس کا پیٹ چیر کر اس میں سے لالٹین کی طرح کوئی چیز نکالی اور کہا ’’اے عمرو! یہ اس کا دھوکہ اور کفر ہے۔‘‘
میں نے اس پراسرار بوڑھے سے استفسار کیا: آپ کا اور اس کالے جن کا قصہ کیا ہے؟ کہنے لگا: ایک نصرانی جن میرا دوست تھا، اس کی قوم سے ہر سال ایک جن میرے ساتھ جنگ لڑتا ہے اور خدا عزوجل بسم اللہ الرحمن الرحیم کی برکت سے مجھے فتح عطا فرماتا ہے۔
پھر ہم آگے بڑھ گئے۔ ایک مقام پر وہ پراسرار بوڑھا جب غافل ہوکر سوگیا تو موقع پاکر میں نے اس کی تلوار چھین کر نہایت پھرتی کے ساتھ اس کی پنڈلیوں پر ایک زوردار وار کیا اور جن سے دونوں ٹانگیں کٹ کر جسم سے جدا ہوگئیں۔ وہ چیخنے لگا ’’او غدار! تو نے مجھے سخت دھوکہ دیا ہے۔‘‘ مگر میں نے اس کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ پے درپے وار کرکے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے، پھرجب میں خیمہ میں واپس آیا تو وہ کنیز بولی ’’اے عمرو! جن سے مقابلے کا کیا بنا؟‘‘ میں نے کہا: بوڑھے شیخ کو جنات نے قتل کردیا ہے۔ وہ کہنے لگی: تو جھوٹ بول رہا ہے، او بے وفا! اس کے قاتل جنات نہیں، بلکہ تو خود ہے۔ یہ کہہ کر اس نے بے قرار واشکبار ہوکر عربی میں پانچ اشعار پڑھے، جن کا ترجمہ ہے۔
(1) اے میری آنکھ تو اس بہادر شہسوار پر خوب رو اور پے درپے آنسو بہا
(2) اے عمرو تیری زندگی پر افسوس ہے۔ حالانکہ تیرے دوست کو زندگی نے موت کی دھکیل دیا ہے
(3) اور (اے عمرو اپنے دوست کو اپنے ہاتھوں) قتل کرنے کے بعد تو (اپنے قبیلے) بنی زبیدہ اورکفار (یعنی ناشکروں) کے گروپ کے سامنے کس طرح فخر کے ساتھ چل سکتا ہے؟
(4) مجھے میری عمر کی قسم (اے عمرو) اگر تو لڑنے میں واقعی سچا ہوتا (یعنی بغیر دھوکہ دیئے مردوں کی طرح اس سے مقابلہ کرتا) تو اس کی طرف سے ضرور تیز دھار تلوار تجھ تک پہنچ کر رہتی (اور تیرا کام تمام کردیتی)
(5) (اے اس بوڑھے کو قتل کرنے والے) بادشاہ حقیقی (حق تعالیٰ) تجھے برا اور ذلت والا بدلہ دے (تیرے جرم کے بدلے میں) اور تجھے بھی اس کی طرف سے ذلت و رسوائی والی زندگی ملے (جس طرح کہ تو نے اپنے دوست کے ساتھ ذلت ورسوائی والا سلوک کیا ہے)
یہ سن کر میں جھلا کر قتل کرنے کے لئے اس پر چڑھ دوڑا، مگر وہ حیرت انگیز طور پر میری نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ گویا اس کو زمین نے نگل لیا ہو۔
(ملخص: از : لقط المرجان فی احکام الجان للسیوطی ص 141 تا 143)
٭٭٭٭٭