سرفروش

عباس ثاقب
گورکھا چوکیدار کے جانے کے بعد مانک نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا، جیسے پوچھنا چاہتا ہو کہ یہ سب آتش گیر باتیںکہنے کی کیا ضرورت تھی۔ میں نے کہا۔ ’’میں نے غلط نہیں کہا ہے۔ اس ساری صورتِ حال کے ذمہ دار تم ہو۔ میں نے کل رات تمہیں کہا تھا کہ اپنے کارندوں کو میری آمد کے بارے میں پہلے سے مطلع کر دینا۔ لیکن تم نے اس کی زحمت نہیں کی اور مجھے اس کے تھانے داروں والے سوالات کا سامنا کرنا پڑا‘‘۔
وہ یک لخت شرمندہ سا ہوگیا اور کھسیانے لہجے میں صفائی پیش کی۔ ’’وہ دراصل آپ میرے اندازے سے کہیں زیادہ جلدی آگئے۔ میں بس اس گورکھے اور باقی دو ملازموں اور ایک ملازمہ کو ہدایت دینے ہی والا تھا۔ دوسرا چوکی دار تو خیر شام کے بعد آئے گا‘‘۔
میں نے اپنی فرضی ناراضی پر قابو پانے کا ناٹک کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا لعنت بھیجو اس قصے پر، تم مجھے جلدی سے ان دونوں کشمیری حسیناؤں کا دیدار کرا دو۔ میرے صبر کا پیمانہ لب ریز ہوچکا ہے‘‘۔
میری بات سن کر مانک کے چہرے سے تناؤ یک لخت دور ہو گیا اور اس نے اپنی مخصوص خباثت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ’’مجھے آپ کی بے تابی کا اندازہ ہے سرکار، لیکن آپ کو پہلے میری درخواست پر پوری طرح عمل کرنے کا وعدہ کرنا ہوگا‘‘۔
میں نے حیرانی اور ناگواری کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا۔ ’’وہ کون سی شرط ہے، جس کی تعمیل پر تم اتنا زور د ے رہے ہو؟‘‘۔
اس نے اپنے لہجے میں مضبوطی لاتے ہوئے کہا۔ ’’میں ان دونوں لڑکیوں کو آپ کے روبرو پیش نہیں کر سکتا، یعنی وہ دونوں اور آپ آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کا جائزہ نہیں لے سکتے۔ میں آپ کو خفیہ طریقے سے ان دونوں سندریوں کے درشن کراؤں گا۔ آپ جی بھر کے ان کا دیدار کرلینا، لیکن انہیں آپ کی نظروں کا مرکز بننے کی کانوں کان خبر نہیں ہوگی‘‘۔
میں نے حیرانی اور ناراضی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ کہا۔ ’’یہ کیا ناٹک ہے مانک؟ ایک طرف تو منہ مانگے داموں کی امید رکھتے ہو، دوسری طرف ایسی احمقانہ شرائط لگاتے ہو۔ کوئی سمجھ دار بندہ دس روپے کے چاول بھی خریدنے جائے تو خوب اچھی طرح جانچ کرتا ہے، یہ تو ہزاروں کا معاملہ ہے۔ میں اپنے لیے مال پسند کرنے آیا ہوں۔ ان لڑکیوں کے زندہ ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے نہیں!‘‘۔
میری بات سن کر وہ کھسیانا ہوگیا۔ قدرے توقف کے بعد بولا تو اس کا لہجہ واضح طور پر مدافعانہ تھا۔ ’’میں آپ کی بات بالکل ٹھیک سمجھتا ہوں بہادر سنگھ جی، لیکن میں مجبور ہوں۔ یہ مٹھو سنگھ کا حکم ہے، جس کی خلاف ورزی میرے لیے ممکن نہیں ہے۔ اگر یہ شرط قبول نہیں ہے تو آپ کی مرضی!‘‘۔
میں نے اس کے لہجے کی قطعیت بھانپتے ہوئے قدرے نرمی سے کہا۔ ’’یہ کوئی معقول بات تو نہیں ہے۔ لیکن مجھے تمہاری مجبوری کا احساس ہے۔ چلو میں تمہاری بات ماننے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن اگر تمام تر احتیاط کے باوجود ان کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو کیا ہوگا؟‘‘۔
مانک نے مطمئن لہجے میں جواب دیا۔ ’’آپ اس کی فکر نہ کریں۔ میں ایسے وقت میں آپ کو ان کا درشن کراؤں گا جب انہیں اپنے آس پاس کے ماحول کا کچھ زیادہ ہوش نہیں ہوگا‘‘۔
میں اس بدبخت شخص کی بات کا مطلب اس وقت پوری طرح نہیں سمجھ پایا، لیکن میں نے زیادہ کرید نہیں کی۔ جو بھی تھا، کچھ ہی دیر میں سامنے آنے والا تھا۔ لیکن مانک مجھے کسی خاص جلدی میں دکھائی نہ دیا۔ اس نے مجھ سے میری اور میرے والد کی کاروباری مصروفیات کے حوالے سے سوال جواب شروع کر دیئے۔ اس کا انداز کھوج لگانے کے بجائے محض وقت گزاری والا تھا، لہٰذا میں ایسے جوابات دیتا رہا، جن کی فوری طور پر تصدیق یا تحقیق ممکن نہ ہو۔ میں نے اپنے والد کے لندن میں بہت بڑے کاروبار اور ہندستان کے بٹوارے کے بعد اپنے دیش منتقل ہونے کا قصہ سنایا اور اس وقت جاری کئی بہت بڑے کاروباروں کا تذکرہ کیا۔
یہ سب سننے کے بعد وہ میری امارت سے پہلے سے بھی زیادہ مرعوب دکھائی دیا، لیکن مجھے بظاہر بلاوجہ کی تاخیر اور انتظار سے اب جھنجلاہٹ ہونے لگی تھی۔ لہٰذا میں نے کچھ اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’مجھے کب تک ترساؤ گے مسٹر مانک؟ اب دیدار کرا بھی دو ان کشمیری اپسراؤں کا!‘‘۔
مانک نے گویا میری بے قراری سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہا۔ ’’تھوڑی دھیرج سے کام لو سردار جی۔ انتظار کا مزا لو۔ اس کے بعد ان پریوں کی جھلک دیکھیں گے تو ان کے روپ کا ٹھیک مول لگا سکیں گے‘‘۔
میں نے تیکھے لہجے میں کہا۔ ’’اچھا تو میری جیب میں بڑے سے بڑا چھید بنانے کے لیے تمہارا یہ ہتھکنڈا ہے؟ تو بے فکر ہوجاؤ، میں اس کے بغیر بھی تمہارا دل خوش کرنے کی طاقت رکھتا ہوں‘‘۔
میری بات سن کر وہ جھینپ مٹانے کے لیے ہنسا اور پھر سنجیدہ لہجے میں بولا۔ ’’یقین کرو سردارجی، دیرلگنے کی یہ وجہ نہیں ہے۔ اصل میں اس موقع میں ابھی کچھ دیر ہے، جب آپ اطمینان سے ان دونوں کو دیکھ سکیں گے اور ان کو پتا بھی نہیں چلے گا‘‘۔
اس نے اب بھی ادھوری بات کی تھی۔ لیکن اسے اپنے موقف پر اڑا دیکھ کر میں نے اسے مجبور نہیں کیا۔ وہ غالباً میرا دل بہلانے کے لیے اپنی پسند کی فلموں اور مشہور گیتوں کے بارے میں باتیں کرتا رہا، میں بھی وقتاً فوقتاً اپنی رائے کا اظہار کرتا رہا۔ لندن میں گزارے ہوئے بچپن کی یاد دہانی کے لیے میں نے اسے چند دھانسو قسم کی ہالی وڈ فلموں کے بارے میں بتایا۔ لیکن اس نے انگریزی زبان میں بالکل کورا ہونے کی بنیاد پر کچھ زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس دوران اس نے چائے بسکٹ کی پیشکش کی جو میں نے مسترد کردی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment