کاکاجی نے شیخ مجیب کے عبرتناک انجام کی پیشگوئی کردی تھی

محمد فاروق
میری خاموشی چیخنے لگی۔ میرا سکون تڑپ اٹھا۔ میں ٹوٹ پھوٹ کر اس محفل سے نکلا۔ بیعت لئے بغیر، کہ شریعت کے قانون کے ظاہری لباس اور اس کی معنوی حقیقت کے درمیان ایک ان دیکھی اور نامعلوم خیلج کو عبور کرنا میرے بس میں نہ تھا۔ غیر محسوس مگر بہت ہی محسوس اور کانٹے کی طرح چبھنے والے انحراف کے خوف کی اس اذیت پر قابو پانا اور اسے اپنے لئے قابل برداشت بنانا، اتنا آسان نہ تھا۔ قانون کے ظاہر کا کوئی بھی پابند مسلمان جب کسی عمل کی طرف بڑھتا ہے تو شریعت سے انحراف کا خوف وہ ہر لمحہ وجدان کی گہرائیوں میں محسوس کرتا ہے، اور سائے کی طرح اپنے وجود کے ساتھ موجود پاتا ہے۔ ظاہر کے دجل میں مبتلا، سراب میں کشتی چلانے والا یہ ناچیز اس ہنر سے بھی ناآشنا تھا، جو راہ شریعت کی کشتی کو ساز و سامان کے ساتھ معنویت کے سمندر میں اتار کر اس کی تہہ سے گوہر نایاب نکال باہر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ’’حرف‘‘ کی لکیروں کی پابندی ہی نہیں، انہیں سب کچھ سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا اس ظاہر بیں، خوگرِ محسوس اور ساحل کے خریدار کی ہر ہر حرکت، راہ چلتے ہوئے اندیشہ ہائے گوں ناگوں میں اس قدر مستغرق ہے کہ نیک نیتی سے بھی معنویت کی خاطر ’’لکیر‘‘ کے امکانی انحراف کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا، چہ جائے کہ اس بحر پر آشوب و پراسرار میں اتر کر شناوری کی جرأت کی جاتی۔
عشق چہ آساں نمود آہ چہ دشوار بود
ہجر چہ دشوار بود یار چہ آساں گرفت
’’عشق بظاہر کتنا آسان لگتا ہے… آہ …! یہ کتنا مشکل ہے، ہجر ایک دشوار چیز ہے، مگر اسے یار نے ہمارے لیے کتنا آسان بنایا ہے‘‘۔
آیئے آپ کا وہ قرض اتاروں اور بتادوں کہ بنگال نہ دینے والا بابا جی کون تھا؟
جب یہ حضرت شل بانڈئی باباجی صیبؒ جن کا تذ کرہ ابھی آپ نے سنا، ہندوستان سے تشریف لے آئے تو ابتدائی دنوں میں جیسا کہ عرض کیا گیا تھا، گنتی کے چند لوگ ہی حلقہ بگوش تھے۔ علاقہ بونیر سلارزئی، ایلم پہاڑی کے دامن میں ایک چھوٹے سے گاؤں ’’شوپڑنگ‘‘ کے ایک غریب کسان، ’’حسن شاہ‘‘ اسی حضرت شل بانڈئی بابا جی صیبؒ کی زلفوں کے اسیر بنے اور اس کام میں دل و جان سے لگ گئے۔ زیادہ دن نہیں گزرے تھے، کہ حسن شاہ مریدانِ بابا جیؒ کے درمیان محبت آمیز لقب، ’’کاکا جی‘‘ کے نام سے پکارے جانے لگے۔ ہوا یوں کہ دن دوگنی رات چگنی روحانی ترقی کرتے ہوئے حسن شاہ کاکا جی ’’قطب‘‘ کے مقام اعلیٰ پر پہنچے۔
قطب کیا ہوتا ہے؟
یہ قصہ کچھ یوں ہے کہ چشتیہ سلسلۂ تصوف میں… میری معلومات کے مطابق ہندوستان میں دو قطب ہیں۔ ہر قطب کے زیر نگرانی یا سرپرستی چار چار ابدال ہیں۔ اس سلسلے کے بزرگوں اور مہربانی سے میری ملاقاتوں، سوالات اور عاجزانہ دست طلبی پر اس ناچیز کو جو معلومات حاصل ہوئی ہیں، وہ آپ کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔ ممکن ہے تصوف کے دوسرے سلسلوں میں یہ ’’سیٹ اپ‘‘ مختلف ہو، ہم صرف چشتیہ سلسلے پر گفتگو کر رہے ہیں۔ ان بزرگوں کا خیال، بلکہ دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ جس طرح زمین و آسمان پر تکوینی معاملات اپنے فرشتوں کے ذریعے تکمیل تک پہنچاتا ہے۔ مثلاً ہم جانتے اور مانتے ہیں کہ وحی کو اللہ کی طرف سے حضور پاکؐ تک پہنچانے کی ذمہ داری حضرت جبرائیل کی تھی۔ بارشوں کے معاملات کے انچارج حضرت میکائیل ہیں۔ قیامت برپا کرنے اور صور پھونکنے کی ذمہ داری حضرت اسرافیل کی ہے۔ قرآن میں قیامت کے دن اللہ تعالی کے عرش مبارک کو آٹھ فرشتوں کے اٹھانے کا ذکر بھی ہے۔ ان بزرگوں کا دعویٰ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے ان جیسے دوسرے تکوینی امور میں فرشتوں کے ساتھ کچھ نیک اور پاک ارواح انسانی کو بھی شامل فرماتا ہے، چاہے زندہ انسانوں کی پاک ارواح ہوں یا… فوت شدہ۔ یہ ’’روحانی پروٹوکول‘‘ کچھ اس طرح ہے کہ معاملات زمین پر فرشتوں کے علاوہ، ہر علاقے کے چار ابدال اپنی اپنی رپورٹیں اپنے اپنے قطب کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ قطب مناسب کارروائی اور تحقیق کے بعد ان رپورٹوں کو لیکر اپنے مرشد اور پھر سلطان الہذا خواجہ غریب نوازؒ کے حضور پیش کرتے ہیں۔ معاملے کی نوعیت، اہمیت اور زمین و انسانوں پر اس کے اثر و تاثیر کے لحاظ سے، خواجہ صاحبؒ کے ساتھ کبھی کبھی کچھ دوسرے اولیا کی ارواح بھی شریک ہوجاتی ہیں۔ ’’فائنل رپورٹ‘‘ تیار ہونے کے بعد اسے ’’آگے‘‘ یعنی رسول اللہ کے حضور پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ان بزرگوں کے دعوے کے مطابق… آخری فیصلہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے صادر ہوتا ہے…۔ کبھی ہماری خواہش، دعاؤں اور توقعات کے مطابق، کبھی ان کے بر خلاف۔
آپ اسے بدعت، شرک یا کفر… جو مرضی کہیں… حقیقت یہ ہے کہ شا ولی اللہؒ، جنہیں امام الہذا کا مقام حاصل ہے، وہ خود فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ’’قائم الزمان‘‘ کے مقام پر فائز فرمایا ہے۔ اب دنیا میں تکوینی معاملات اللہ تعالیٰ میرے واسطے سے تکمیل تک پہنچاتا ہے (واللہ اعلم)۔ اس مرحلے پر اس پورے متصوفانہ پروٹوکول کو شریعت کے اصولوں پر پرکھنا اور اس کے جواز و عدم جواز کی بحث کو ہم چھوڑ دیتے ہیں۔ ہم اس بحث کے آخری حصے میں ایک بار پھر اس پر گفتگو کریں گے، سر دست، احباب اتنا سمجھ لیں… اور یہ میری ذاتی رائے ہے… کہ اگر خدا کے ساتھ اختیارات میں شرکت کا دعویٰ، نہ فرشتوں کے لیے ہو، نہ ان پاک اراوح کے لیے… بلکہ ان ارواح کی حیثیت بھی ان فرشتوں کے برابر سمجھی جائے، جو اللہ کے حکم اور مرضی سے تکوینی امور بجا لاتے ہیں… تو قطع نظر یہ کہ بجائے خود یہ دعویٰ درست ہے یا غلط، اسے بہر حال شرک نہیںکہا جاسکتا۔
اب آئیے واپس کاکا جی کی طرف…۔ ہوا یوں کہ کچھ مدت گزرنے پر کاکا جی اور ان کے اپنے مرشد شل بانڈئی بابا جی صیبؒ کے درمیان بعض امور پر اختلافات پیدا ہوگئے۔ ان اختلافات نے آگے جاکر ایک ایسی صورت اختیار کرلی، کہ مشرقی پاکستان کے معاملے نے گویا اس کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ کاکا جی کسی صورت بنگال دینے پر تیار نہ تھے۔ دوسری طرف دوسرے بزرگ اس سانحے کو قبول کرنے کا ذہن بناچکے تھے۔ کاکا جی کے لیے واحد راستہ یہ تھا کہ یا تو خود اس کا مرشد شل بانڈئی بابا جیؒ اس کی حمایت کرتا… یا ہندوستان کا دوسرا قطب، جو اسی پاکستان کے کسی علاقے سے تعلق رکھتا تھا، وہ کاکا جی کا ہمنوا بنتا۔ مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ نہ صرف باباجی صیبؒ بلکہ وہ دوسرا قطب، جسے کاکا جی غصے میں ’’نائی‘‘ کے نام سے پکارتا ہے، وہ بھی بابا جیؒ کی حمایت اور کاکا جی کے مخالف کیمپ میں چلا گیا۔ آخری میٹنگ میں، جہاں کاکا جی کے بقول جیلان کا غوث بھی شریک تھا… اور بات ’’آگے‘‘ تک پہنچانے کے لیے آخری مشورہ ہورہا تھا… کاکا جی کے ’’ووٹ‘‘ کم پڑگئے… اور بنگال دینے کا فیصلہ ہوگیا۔ کاکا جی ناراض ہوکر میٹنگ سے… جدید زبان میں… واک آئوٹ کر گئے۔ جس شخصیت کے بارے میں اس نے کہا تھا ’’اس کی تو شکل بھی نہیں دیکھوں گا‘‘ اس سے ان کی مراد ان کے مرشد شل بانڈئی باباجی صاحبؒ ہی تھے۔
لیکن پہلے اس سے کہ اس کہانی پر آپ یا ہم کسی جھوٹ و سچ کا لیبل لگائیں، درج ذیل چند باتیں ہم سے کے لیے قابل غور ہیں۔
کاکا جی نے میٹنگ سے نکلتے ہوئے کہا تھا کہ اس مجیب کے بچے کو تو میں نے وہ انجکشن لگایا ہے کہ اس کی ساری نسل یاد رکھے گی… جب اقتدار حاصل کرنے کے کچھ عرصے بعد شیخ مجیب کو پورے اہلخانہ کے ساتھ خون میں نہلایا گیا… تو مجھے معلوم ہوا کہ کاکا جی کے ’’انجکشن لگانے‘‘ کا مطلب کیا تھا…!
کاکا جی نے یہ بھی کہا تھا کہ، خون بہتا ہے… اور یہ بہتا رہتا رہے گا… بنگلہ دیش میں اقتدار کی رسہ کشی میں مجیب کے بعد بھی جو خون بہا… وہ کاکا جی کی بات کی تصدیق نہیں تو اور کیا تھا؟
کاکا جی نے کہا تھا کہ ہندوستان بغلیں بجاتا ہے…۔ آپ حیران ہونگے کہ جب کاکا جی یہ باتیں کر رہا تھا… اس وقت بونیر میں بجلی تک نہیں تھی، ٹی وی کیا، ریڈیو کی سہولت بھی شاذ و نادر ہوا کرتی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ کاکا جی بالکل ان پڑھ تھے… لیکن جب اندرا گاندھی نے یہاں تک کہا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خیلج بنگال میں غرق کر دیا ہے… تو مجھے کاکا جی کی وہ بات شدت سے یاد آئی کہ:
’’ہندوستان بغلیں بجاتا ہے‘‘۔
اور کاکا جی نے میٹنگ سے نکلتے ہوئے، دوسرے بزرگوں کو یہ دھمکی بھی دی تھی… کہ:
’’تمہارے ان مہروں کو بھی میں دیکھوں گا‘‘
مجیب کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان کے تین بڑے مہرے، بھٹو، اندرا گاندھی اور جزل ضیاء الرحمن بنگل دیش… جو پاک فوج کا پہلہ بنگالی باغی جنرل تھا… جب اپنے عبرت ناک انجام کو پہنچے، تو لاریب… مجھے کاکا جی کے ایک ایک لفظ کی صداقت آنکھوں دیکھا حال معلوم ہونے لگی۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment