مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی سازش لاڑکانہ میں بنی

س: یہ جو تاثر ہے کہ مسلم لیگ مضبوط رہتی تو پاکستان دو ٹکڑے نہ ہوتا۔
ج: ٹھیک ہے۔
س: کیسے؟
ج: اگر مسلم لیگ مشرقی پاکستان میں کامیاب ہوجاتی تو کون توڑتا پاکستان۔ حکومت مسلم لیگ کی بننی تھی۔ اس کی ساری ذمہ داری ایوب خاں کے سر ہے۔ جب پاکستان بنا ہے۔ میں اس سے پہلے یہ بات آپ سے بیان کرچکا ہوں، میرا خیال ہے پچھلی نشست میں، میں یہ بات کہہ چکا ہوں۔
س: ایوب خاں کے متعلق۔
ج: ہاں۔
س: نہیں۔
ج: ایوب خاں نے بلاجواز مارشل لا لگایا تھا۔ جس وقت وہ مارشل لا لگا ہے اس سے پہلے مسلم لیگ ہی BASIC (اصل) پارٹی تھی۔ اصل میں بنیاد جو ہے وہ اس وقت پڑی جب مشرقی پاکستان والوں کو احساس ہوا کہ اس (62ء کے) آئین کے تحت مشرقی پاکستان کی باری نہیں آسکتی، کیونکہ اس کی بنیاد ہے بی ڈی سسٹم۔ انتظامیہ اگر مغربی پاکستان میں ہے تو پھر مشرقی پاکستان کی (اقتدار میں) باری نہیں آسکتی۔
س: فوج مغربی پاکستان کی، کمانڈر انچیف مغربی پاکستان کا۔ لامحالہ صدر بھی مغربی پاکستان سے۔ ہم تو کالونی بنے رہیں گے۔
ج: ہاں۔ یہ 65ء کی جنگ میں انہیں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا۔
س: مادر ملتؒ کی شکست پر بھی انہیں احساس ہوا۔
ج: مادر ملتؒ کی شکست پر بھی انہیں ضرور احساس ہوا ہوگا۔ کیونکہ مادر ملتؒ کو مشرقی پاکستان میں (مغربی پاکستان سے) ووٹ زیادہ ملے تھے۔
س: اس کے باوجود جب مادر ملتؒ ہار گئیں تو انہوں نے سوچا کہ ہم ووٹ کے ذریعے تبدیلی نہیں لاسکتے۔ جو فوجی صدر بیٹھا ہے وہ جسے مرضی جتوا دے۔ دھاندلی تو اس وقت بھی ہوئی تھی۔
ج: جی ہاں۔ بالکل ہوئی تھی۔ مادر ملتؒ کو مشرقی پاکستان سے شاید 50 فیصد ووٹ ملے تھے۔ مجھے یاد نہیں۔
س: جہاں تک مجھے یاد ہے 47 فیصد۔ زیادہ انہیں وہیں سے ملے تھے۔ بلکہ مشرقی پاکستان کی لیڈر شپ نے ایک تناسب دیا تھا کہ اگر مغربی پاکستان والے اتنے ووٹ بھی حاصل کرلیں تو ہم مادر ملتؒ کو جتوا دیں گے۔
ج: مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ دس ہزار ووٹ آپ مغربی پاکستان سے لے لیں، میں جتوا دوں گا۔
س: اس وقت مجیب الرحمن کا رویہ ہی کچھ اور تھا۔
ج: 1966ء میں نیشنل کانفرنس جو ہوئی تھی۔ اس وقت مجیب الرحمن نے کہا تھا کہ آئین میں ترمیم کرکے پروویژن رکھ دو کہ ایک بار صدر مغربی پاکستان سے، ایک بار صدر مشرقی پاکستان سے۔ ہم اس آئین کو تسلیم کرلیں گے۔ لیکن ایوب خاں نہیں مانے۔
س: اس لئے کہ پھر میری صدارت نہیں رہے گی۔
ج: میں دیانت داری سے کہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان کے ٹوٹنے کا اصل سبب تو ایوب خاں ہے۔ کوئی جواز نہیں تھا 58ء میں مارشل لا لگانے کا۔
س: آپ کہہ رہے تھے کہ 65ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان والوں کو عدم تحفظ کا احساس ہوا۔ جنرل یحییٰ خاں نے آگے کام ہی تمام کردیا۔
ج: ظاہر ہے، اس وقت کئی فورسز تھیں جو کہتی تھیں کہ ایسٹ پاکستان ہمارے اوپر LIABILITY (بوجھ) ہے۔
س: فورسز سے آپ کی مراد؟
ج: قوتیں۔
س: کون سی قوتیں؟
ج: کئی لوگ تھے جو کہتے تھے کہ مشرقی پاکستان LIABILITY ہے۔ اکنامک LIABILITY ہے پاکستان پر۔
س: ملکوں میں ایسے کئی علاقے ہوتے ہیں۔ انہیں کاٹ کے پھینک تو نہیں دیا جاتا، بلکہ ایک ایک انچ کی حفاظت کے لئے جان لڑا دی جاتی ہے۔ جبکہ مشرقی پاکستان کے ضمن میں بوجھ والا نقطہ نظر سرے سے ہی غلط تھا۔
ج: بہرحال، اقتدار کے چکر میں پڑ گئے کہ موج میلہ کریں۔
س: ایسٹ پاکستان کی علیحدگی میں بھٹو کا کوئی رول بھی آپ تسلیم کریں گے۔
ج: بھٹو کا رول بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ یحییٰ خاں کے ساتھ کافی تعلقات تھے اس کے۔ یحییٰ خاں کا وہ بعد میں وزیر خارجہ بھی بنا۔
س: وہ تو چند دن کے لئے۔ وہ بھی آخر میں۔
ج: بہرحال، کانفی ڈینس کے آدمی کو ہی بنایا جاتا ہے۔
س: کیا بھٹو کی شروع سے اسکیم تھی کہ ایسٹ پاکستان ٹوٹے۔ اور پھر اس آدھے پاکستان کا میں صدر یا وزیراعظم بن جاؤں؟
ج: دیکھو بھائی جان، میں دو دفعہ یونائٹیڈ نیشنز گیا ہوں۔ یونائٹیڈ نیشنز میں ایک ایسا ملک ہے جس کا کوئی نمائندہ نہیں۔ وہ مقامی کسی امریکن سے کہہ دیتے ہیں کہ تو ہماری نمائندگی کیا کر۔ جب افغانستان کے اشو پر ووٹ ہوئے تو ہمارے مشن کے آدمی بھاگے ایک ووٹ کے لئے۔ ڈھونڈنے گئے۔ اخیر وہ بندہ کھچ کھچا کے لائے۔ اس کے آنے سے پہلے ووٹنگ ہوچکی تھی۔ میں نے پوچھا قصہ کیا ہے۔ کہتے ہیں، یہ ہے گا وکیل۔ یہ فلانے ملک کی نمائندگی کررہا ہے۔
س: ملک کا نام یاد ہے؟
ج: ملک کوئی سالمن آئی لینڈ۔ کوئی جزیرہ چھوٹا سا۔ بیس، تیس، چالیس ہزار کی آبادی کا ملک ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسے جاکے ہم نے کہا تو اس نے جواب دیا کہ میرا مقدمہ لگا ہوا ہے۔ میں فارغ ہو کے آؤں گا۔ کہتے ہیں ہم نے اس کے پیچھے بندہ لگادیا تھا کہ جس وقت یہ فارغ ہو اسے لے آنا۔ پھر بھی اس کے فارغ ہوتے ہوتے اور آتے آتے ووٹنگ ہوگئی۔ دو منٹ پہلے۔ لیکن ووٹ اس ملک کا تھا۔ اگر اس کا سربراہ امریکہ میں ملنے جائے تو کلنٹن (امریکی صدر) اسے اسی طرح ریسیو کرے گا۔ مسئلہ یہ نہیں کہ ملک کا سائز کیا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو ہیڈ ہے وہ ہیڈ ہے۔ کئی چھوٹے ملک ہیں ’گرینیڈا‘ کریبیئن آئی لینڈز۔
س: دبئی وغیرہ۔
ج: دبئی وغیرہ کے پاس تو مال پانی بڑا ہے۔ ان کے پلے تو کچھ نہیں۔ لیکن یو این او میں امریکہ کا ووٹ اور سالمن آئی لینڈ کا ووٹ یا گنی کا ووٹ برابر ہیں۔ جن ووٹنگ ہوتی ہے تو ان کے ووٹ برابر ہیں۔ اس واسطے اس (بھٹو) نے سمجھا تھا۔
س: ذمہ داری تو بالآخر یحییٰ خاں پر ہی آتی ہے۔
ج: جی ہاں، یحییٰ خاں پر، یحییٰ خاں پر۔
س: یہ بھی کس قدر الم ناک واقعہ ہے کہ ایک طرف جنرل یحییٰ نے ڈھاکہ جاکر اعلان کردیا کہ شیخ مجیب الرحمن پاکستان کے اگلے وزیراعظم ہوں گے۔ پھر انہیں اقتدار بھی نہ دیا۔ ملک دے دیا۔
ج: اصل میں یہ سازش لاڑکانہ میں بنی۔ جب یحییٰ خاں نے مجیب الرحمن سے کہہ دیا کہ آپ اگلے پرائم منسٹر ہوں گے تو واپسی پر اسے بھٹو نے لاڑکانہ بلایا۔ وہاں اس نے بڑا اہم قسم کا فنکشن کیا۔ لڑکیاں شڑکیاں۔ مجھے وہ خبر ابھی تک یاد ہے۔ ’’سن‘‘ اخبار نے چھاپی تھی:
UNDER THE SHADOW OF A MANGO TREE
(آم کے پیڑ تلے)۔
یحییٰ اور بھٹو اٹھ کے لان میں آگئے۔ انہوں نے آم کے درخت کے نیچے خفیہ گفتگو کی۔ اس طرح یحییٰ خاں پلٹے۔
س: جنرل یحییٰ خاں اگر شیخ مجیب الرحمن کو حکومت دے دیتے تو کوئی چیز ان کے مانع نہ تھی۔ بھٹو صاحب کیا کرسکتے تھے۔ کوئی بھی کیا کرسکتا تھا۔
ج: کچھ نہیں ہوسکتا تھا۔ ٹھیک ہوجاتا۔ پاکستان بچ جاتا۔
س: ان کا یہ موقف یا خوف جو تھا کہ اگر مجیب کو حکومت دی جاتی ہے تو وہ چھ نکاتی آئین نافذ کردے گا۔
ج: یہ قوم الو دی پٹھی ہے۔ جی کنفیڈریشن بنالیں۔ چھ نکات تو کنفیڈریشن سے زیادہ ہی تھے۔ اور بہت ہے دنیا میں۔ امریکہ جاؤ نا، کتنی انٹرنیشنل اسٹیٹس ہیں۔ لیکن یہ جذباتی قوم ہے۔ چھ نکات، چھ نکات۔ کسی نے پڑھے ہی نہیں چھ نکات۔

س: آپ کے خیال میں زیادہ پروپیگنڈا تھا۔
ج: جس طرح میں کئی دفعہ کہتا ہوں کہ میں آٹھویں ترمیم کا حامی ہوں۔ کوئی بتائے کیا خرابی ہے اس میں۔ ابھی تک کوئی بتا نہیں سکا۔
س: سب سے بڑی خرابی جو بیان کی جاتی ہے یہی کہ صدر جب چاہے
ج: اسمبلی توڑ دے۔
س: ہاں۔
ج: یہ کوئی خرابی نہیں۔
س: اسے آپ اچھائی کہیں گے؟
ج: یہ خرابی ہے ہی نہیں۔ بجائے مارشل لا لگوانے کے۔ جو بے نظیر اور نواز شریف کی جنگ شروع ہوئی۔ اس میں اسمبلیاں ٹوٹ کے نئی اسمبلی آئی نا۔ مارشل لا نہیں آیا۔ اگر صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار نہ ہو تو پھر مارشل لا ہی آئے گا۔
س: بات ایسٹ پاکستان کی ہو رہی تھی۔ چوہدری محمد علی کوٹھی پر 1966ء میں جو نیشنل کانفرنس ہوئی تھی۔ آپ نے کہا ہے کہ اس وقت شیخ مجیب نے آئین میں ترمیم کا کہا تھا۔ ظاہر ہے انہوں نے کانفرنس میں تو نہیں کہا تھا۔ اگر وہاں کہا ہوتا تو بات بہت پھیلتی۔ اس کا انہوں نے کہاں ذکر کیا؟
ج: بھائی جان میں گواہ ہوں اس بات کا کوئی مانے نہ مانے۔ وہ یہاں تھا۔ کانفرنس جو ہورہی تھی۔ میری بدقسمتی یا خوش قسمتی، مسلم لیگ کے حوالے سے اگر دو بندوں کی میٹنگ ہے تو تیسرا میں ہوتا تھا۔ اب تو ٹائم اور ہے۔ اب تو چٹھہ صاحب سے ملاقات کے لئے پیشگی ٹائم لینا پڑتا ہے۔ جس وقت چھ نکات کا رولا زیادہ ہوگیا۔ میرا وہ واقف تھا، اس حساب سے کہ ہم نعرے مارنے میں شامل ہوتے تھے۔ دو ایک دن بعد ایک میٹنگ ہوئی میاں شجاع الرحمن کے مکان پر، میاں ذکاء الرحمن کے گھر پر۔ تھوڑے سے بندے اکٹھے ہوئے۔ چوہدری محمد علی بھی تھے، مجیب الرحمن بھی تھا۔ دولتانہ صاحب بھی تھے۔ پتہ نہیں نصر اللہ خاں بھی تھے، مجھے یاد نہیں۔ وہاں تجویز دی مجیب الرحمن نے۔ اس نے کہا کہ ایسا کریں آپ 62ء کے آئین میں یہ ترمیم کروا دیں کہ ایک دفعہ صدر مشرقی پاکستان سے، اور ایک دفعہ صدر مغربی پاکستان سے۔ ہمارا جھگڑا ختم۔ چوہدری محمد علی کے سپرد کیا گیا کہ ایوب خاں آپ کا یار ہے اسے منائیں۔ وہ جواب لے کے آئے کہ ایوب خاں نہیں مانتا۔
س: ایوب خاں جیتے جی کیسے صدارت چھوڑ دیتے۔
ج: ابھی ان کی صدارت کے تین چار سال بقایا تھے۔ 69ء تک اس کی صدارت تھی۔ ابھی تین سال تھے۔
س: لیکن وہ اس کے بعد بھی صدر رہنا چاہتے تھے۔
ج: مرنا توپ پر تھا۔ ضیاء الحق بھی توپ پر مرنے کے چکر میں تھا۔
س: یوسف خٹکؒ راوی ہیں کہ ’’سہر وردیؒ نے مجھے ایک نہیں دو مرتبہ کہا تھا کہ آپ ایوب خاں سے کہیں کہ میں مرنے سے پہلے پاکستان کے لئے ایک آخری خدمت کرنا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان CONSTITUTIONAL SETTLEMENT (آئینی تصیفہ) ہوجائے، ورنہ میرے بعد کوئی ایسی شخصیت نہیں ہوگی، جو یہ خدمت انجام دے سکے‘‘۔ (بحوالہ: سیاسی اتار چڑھاؤ) لیکن ایوب خاں اس کے لئے تیار نہ ہوئے۔
ج: مجھے ایک بار میاں ممتاز دولتانہ نے بات سنائی کہ ایوب خاں نے حیدرآباد، سندھ، میں ایک میٹنگ کی جس میں انہوں نے مجھے بلایا۔ ایک آدھ اور کو بھی بلایا ہوگا۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ ایوب خاں کہتا ہے کہ ’’کوئی مجھے تجویز بتائیں کہ مشرقی پاکستان کو کیسے بچایا جاسکتا ہے‘‘۔ یہ سوچ کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی والی پرانی باتیں ہیں۔
س: اس لئے کہ انٹرنیشنل سازش تو ساتھ ساتھ چل رہی تھی۔
ج: کہتے ہیں میں نے ایوب خاں سے کہا کہ بہت لیٹ ہوگیا ہے۔ لیکن ایک آدمی ہے جو ہر قیمت پر مشرقی پاکستان کو بچا سکتا ہے، اس کا نام ہے حسین شہید سروردیؒ۔ اس کے حوالے کریں سارا کچھ۔ اسے کانفی ڈینس دیں۔ وہ پھر بچا سکتا ہے مشرقی پاکستان۔ کہتے ہیں، میں نے یہ بات کی تو بھٹو بوٹوں سمیت صوفے پر کھڑا ہوگیا۔ ایوب خاں سے کہا ’’سر‘‘ یہ بڑا سازشی آدمی ہے۔ یہ آپ کو الٹے مشورے دے رہا ہے۔ خبردار، آپ نے اس کی بات مانی تو۔ میاں صاحب کہتے ہیں، میں اٹھا۔ ایوب خاں کو سلام کیا۔ آگیا۔ جس وقت یہ ملاقات ہوئی سیاسی طور پر میاں دولتانہ ایوب خاں کے خلاف تھے۔ انہوں نے یہ نہیں کہا کہ میں ۔ انہوں نے کہا، سروردیؒ۔ سروردیؒ تو ان کی پارٹی میں نہیں تھے۔
س: یحییٰ خاں نے مجیب کو اقتدار دینے کی بجائے ان کے خلاف ایکشن لیا۔ اس وقت بعض قابل ذکر پارٹیوں کی یہ سوچ تھی کہ مجیب کے خلاف ایکشن لیا جائے۔ اسے کچل دیا جائے۔
ج: نہیں۔
س: جماعت اسلامی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
ج: جماعت اسلامی کی سوچ ہمیشہ EXTREMIST (انتہا پسندانہ) رہی ہے۔ مسلم لیگ تو نہیں کہتی تھی۔ ہمارا تو اس اشو پر ریزولیوشن ہے گا، مسلم لیگ کونسل کا۔ کہ بھٹو اور مجیب الرحمن کو بٹھاؤ۔ ان میں کمپرومائز کراؤ اور اسمبلی کا اجلاس بلاؤ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment